• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان دراڑیں ختم کرنے کیلئے مسلم لیگ (ن) سرگرم

شائع January 2, 2023
وزیر اعظم شہباز شریف نے ایم کیو ایم کو راضی کرنے کے لیے وفد کراچی بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے— فائل فوٹو: اے پی پی
وزیر اعظم شہباز شریف نے ایم کیو ایم کو راضی کرنے کے لیے وفد کراچی بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے— فائل فوٹو: اے پی پی

حکومتِ سندھ کی جانب سے کراچی اور حیدرآباد میں موجودہ حلقہ بندیوں کے تحت بلدیاتی انتخابات کرانے کے فیصلے پر متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کی مخالفت کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے پارٹی کو راضی کرنے کے لیے وفد کراچی بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایم کیو ایم کی جانب سے کراچی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اس معاملے پر الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کے انتباہ کے چند لمحوں بعد وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور سردار ایاز صادق نے رہنما ایم کیو ایم پاکستان امین الحق کو فون کیا اور بتایا کہ وہ ایم کیو ایم کے تحفظات دور کرنے کے لیے (آج) پیر کو اُن کے دفتر کا دورہ کریں گے۔

ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت کا وفد ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں سے بات چیت کرے گا اور 15 جنوری کو بروقت انتخابات کے انعقاد کا کوئی راستہ نکالنے کے لیے پیپلز پارٹی کی قیادت سے بھی ملاقات کرے گا۔

ٹیلی فونک گفتگو سے باخبر ذرائع نے بتایا کہ ’سردار ایاز صادق نے ایم کیو ایم-پاکستان کے رہنما کو یقین دلایا کہ وزیر اعظم کی ہدایت کے مطابق یہ وفد تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے گا اور پارٹی کے تحفظات کو دور کرنے کی پوری کوشش کرے گا۔

قبل ازیں ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے ہنگامی اجلاس میں اس پیشرفت پر تبادلہ خیال کیا گیا اور صورتحال بدستور برقرار رہنے کی صورت میں نیا لائحہ عمل بنانے کی حکمت عملی طے کی گئی۔

مذکورہ اجلاس کی صدارت پارٹی کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کی تھی، انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ موجودہ حلقہ بندی کے تحت کراچی میں بلدیاتی انتخابات شہر کے مینڈیٹ کے خلاف ہوں گے، انہوں نے انصاف کے لیے عدالت اور الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کا عزم بھی ظاہر کیا۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ پیپلزپارٹی نے ایم کیو ایم کے متعدد مطالبات تسلیم کر لیے ہیں جس پر دونوں جماعتوں نے اپریل میں دستخط کیے تھے، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ ’ہم شہری سندھ میں کسی بھی انتخابی مشق سے قبل نئے سرے سے مردم شماری اور حلقہ بندی کے مطالبے پر قائم ہیں‘۔

بعد ازاں بہادر آباد میں ایم کیو ایم کے ہیڈکوارٹر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ’ہم الیکشن کمیشن سے یہ سوال کرنے کا جواز رکھتے ہیں کہ حکومتِ سندھ کے پاس حلقہ بندی کا کیا اختیار ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’اس غیر منصفانہ حلقہ بندی نے بے ترتیب حلقوں کو جنم دیا ہے جن کا مقصد ذاتی مفادات کو پورا کرنا ہے، ہم معاملے کو حل کرنے کے لیے وزیر اعظم کی جانب دیکھ رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے میں اس حوالے سے پُرامید نہیں ہوں‘۔

اجلاس کو آگاہ کیا گیا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے گزشتہ برس یکم فروری کو دیے گئے فیصلے کے حوالے سے ایم کیو ایم پہلے ہی حکومتِ سندھ سے رابطہ کرچکی ہے جس میں عدالت کی جانب سے حکومت سندھ کو لوکل گورنمنٹ سسٹم کو بااختیار بنانے کی ہدایت کی گئی تھی، انہوں نے کہا کہ ’عدالت کا یہ فیصلہ بنیادی طور پر پولنگ سے قبل نئی حلقہ بندی کا مطالبہ کرتا ہے‘۔

خیال رہے کہ حکومت سندھ نے گزشتہ ہفتے الیکشن کمیشن کو خط لکھا تھا جس میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر مزید ضروری کارروائی کے لیے الیکشن کمیشن کی رائے طلب کی گئی تھی۔

حکومت سندھ نے مذکورہ خط میں ایڈووکیٹ جنرل کی رائے منسلک کی تھی جو اختیارات کی منتقلی اور نئی حلقہ بندی کے بارے میں ایم کیو ایم کے مؤقف کی تائید کرتی ہے، تاہم ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی پُراعتماد نہیں تھے کہ 15 جنوری کے انتخابات سے قبل نتیجہ ان کی پارٹی کے حق میں آئے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’سب کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اگر انتخابی بدانتظامی کو روکنے کے لیے کسی قانون کے بغیر کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تو ذمہ دار الیکشن کمیشن ہوگا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’2017 کی مردم شماری میں کراچی کی آبادی کو پہلے ہی اس کے حقیقی حجم سے نصف شمار کیا گیا، اس سے بڑی ناانصافی کوئی نہیں ہو سکتی‘۔

خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ’حلقوں کے درمیان عدم تناسب کو دیکھیں، ایک حلقے میں ووٹرز کی تعداد 30 ہزار ہے جبکہ اس کے ساتھ موجود دوسرے حلقے کے ووٹرز ایک لاکھ سے زیادہ ہیں، اس طرح کی جوڑ توڑ کراچی کے حقیقی مینڈیٹ کی عکاسی ہرگز نہیں کرے گی‘۔

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم، کراچی کے لیے انصاف کے حصول کی خاطر تمام آپشنز استعمال کر چکی ہے، میں نے پیپلز پارٹی اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی قیادت کو ان کے وعدے یاد دلائے لیکن بدقسمتی سے اب میں خود کو بے بس محسوس کر رہا ہوں’۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024