• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

کراچی میں ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر ایک اور نوجوان قتل

شائع January 1, 2023
25 سالہ جہانگیر سہیل فوٹوگرافر بھی تھا —فائل فوٹو: طلحہٰ ہاشمی/ٹوئٹر
25 سالہ جہانگیر سہیل فوٹوگرافر بھی تھا —فائل فوٹو: طلحہٰ ہاشمی/ٹوئٹر

سال 2022 کا اختتام کراچی میں پیش آنے والے انتہائی افسوس ناک واقعے سے ہوا جہاں ایک اور نوجوان گھر کی دہلیز پر ڈکیتوں کے ہاتھوں قتل کردیا گیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق کراچی میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے شہریوں کے تحفظ میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں، ڈکیتوں کے ہاتھوں قتل ہونے والا نوجوان نجی یونیورسٹی میں بی بی اے کا طالبعلم تھا جس کی شناخت 25 سالہ جہانگیر سہیل کے نام سے ہوئی ہے۔

جہانگیر سہیل نارتھ کراچی سیکٹر 8 میں اپنے گھر کے باہر کھڑا تھا، اسی دوران موٹر سائیکل پر سوار 2 مسلح ملزمان آئے اور لوٹ مار کی کوشش کی، جہانگیر نے مزاحمت کی تو انہوں نے اسے 2 گولیاں مار دیں اور اس کا کیمرہ اور موبائل فون سمیت دیگر سامان لوٹ کر فرار ہوگئے۔

جہانگیر سہیل اقرا یونیورسٹی میں بی بی اے پروگرام کے تیسرے سال کا طالبعلم تھا اور پروفیشنل فوٹوگرافر بھی تھا، وہ ایک تقریب کی کوریج کے بعد گھر پہنچا تھا جب ڈکیتی کی واردات رونما ہوئی۔

واقعے کے بعد اہلِ خانہ نوجوان کو عباسی شہید ہسپتال لے گئے۔

مقتول کے بھائی نے ڈان کو بتایا کہ ’عباسی شہید ہسپتال کے ڈاکٹرز نے جہانگیر کو آغا خان یونیورسٹی ہسپتال منتقل کرنے کا کہا کیونکہ ڈاکٹرزکا کہنا تھا کہ گولی ریڑھ کی ہڈی میں لگی ہے جس کی وجہ سے وہ زندگی بھر کے لیے معذور ہوسکتا ہے اور انہیں اس طرح کے کیسز میں مہارت حاصل نہیں ہے، جس کے بعد ہم جہانگیر کو آغا خان ہسپتال لے گئے جہاں وہ دم توڑ گیا‘۔

مقتول کے ورثا میں ایک بہن، ایک بھائی اور ماں شامل ہیں، جہانگیر اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا جبکہ ان کے والد کا پہلے ہی انتقال ہوچکا ہے۔

جہانگیر کے بچپن کے دوست حمیز ملک نے بتایا کہ مقتول جہانگیر بہت سادہ آدمی تھا، اس کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھی، اگرچہ وہ بی بی اے کا طالبعلم تھا لیکن وہ پروفیشنل فوٹوگرافی کرتا تھا کیونکہ یہ اس کا جنون تھا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’جہانگیر گزشتہ 4 برسوں سے فوٹوگرافی کر رہا تھا اور حال ہی میں اس نے نیا کیمرہ خریدا تھا، وہ گھر میں سب سے چھوٹا تھا تو اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ سب کا لاڈلا تھا، نرم مزاج شخصیت کے ساتھ وہ ایک سادہ زندگی گزارنے کا عادی تھا، وہ یونیورسٹی جاتا، تقریبات کی کوریج کرتا اور واپس گھر آجاتا تھا، جہانگیر کی موت اس سے تعلق رکھنے والے تمام لوگوں کے لیے ایک بہت بڑا نقصان ہے‘۔

مقتول کے بھائی ارحم سہیل نے مزید بتایا کہ ’جب واقعہ پیش آیا اس وقت میں گھر میں موجود نہیں تھا، مجھے میری والدہ نے فون کرکے اطلاع دی تھی کہ بھائی کو گولی لگی ہے اور وہ ہسپتال میں ہے، میں فوراً ہسپتال پہنچا اور پھر جہانگیر کو آغا خان ہسپتال لے گئے جہاں وہ دم توڑ گیا‘۔

نماز جنازہ

مقتول جہانگیر سہیل کی نمازجنازہ مسجد میں ادا کی گئی جہاں امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے بھی شرکت کی، مقتول کو مقامی قبرستان میں دفنا دیا گیا۔

متحدہ قومی مومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان نے واقعے کے حوالے سے بیان جاری کیا اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور انسپکٹر جنرل پولیس سے علاقے کے ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔

ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے بیان میں کہا گیا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شہر کو مجرموں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

واقعے کا مقدمہ سرسید ٹاؤن پولیس اسٹیشن میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302، 393 اقر 34 کے تحت درج کرلیا گیا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024