فلسطینیوں کا اقوام متحدہ کی اسرائیلی قبضے پر ووٹنگ کا ’فتح‘ کے طور خیرمقدم
فلسطینیوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے عالمی عدالت انصاف سے فلسطینی علاقے میں اسرائیلی قبضے پر قانونی رائے فراہم کرنے کی درخواست کا خیرمقدم کیا ہے۔
خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ میں ہونے والی یہ مذکورہ ووٹنگ اسرائیل کے نئے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے لیے پریشانی کا باعث ہوگی جو اگلے ہفتے اپنا منصب سنبھالیں گے اور ان کی اتحادی حکومت میں وہ سخت گیر جماعتیں بھی شامل ہیں جو مغربی کنارے کے علاقوں کو اسرائیل سے ضم کرنے کی حامی ہیں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عالمی عدالت انصاف سے کہا ہے کہ اسرائیل کے قبضے، آباد کاری اور انضمام سمیت جغرافیائی تبدیلی، مقدس شہر یروشلم کی حیثیت اور کردار، امتیازی قوانین اور اقدامات کے نقصانات پر قانون مشورہ فراہم کیا جائے۔
دوسری جانب ریاستوں کے درمیان تنازعات پر کام کرنے والی اقوام متحدہ کا ادارہ عالمی عدالت انصاف کا مرکز ہیگ میں ہے اور اس کے فیصلے پر عمل درامد لازمی ہوتا تاہم عالمی عدالت کے پاس اس کے نفاذ کے اختیارات نہیں ہیں۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے مغربی کنارے، غزہ اور مشرقی یروشلم پر 1967 کی جنگ کے دوران قبضہ کیا تھا جو فلسطین کا حصہ ہے اور وہاں کے عوام ان علاقوں میں اپنی ریاست میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان 2014 میں اس تنازع کے حل کے لیے مذاکرات ہوئے تھے لیکن ناکام ہوگئے تھے۔
فلسطین کے صدر محمود عباس کے ترجمان نبیل ابو رودینہ کا کہنا تھا کہ ’وقت آگیا ہے کہ اسرائیل کو کٹہرے میں لایا جائے اور ہمارے لوگوں پر جاری جرائم کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے‘۔
دوسری جانب اسرائیل عہدیداروں کی جانب سے اقوام متحدہ کی ووٹنگ کے حوالے سے تاحال کوئی بیان جاری نہیں ہوا تاہم اسرائیلی سفیر نے ووٹنگ سے قبل اس کی مذمت کی تھی۔
فلسطین کے اعلیٰ عہدیدار حسین الشیخ نے ٹوئٹر پر بیان میں کہا کہ ’ووٹ سے فلسطینی کی سفارت کاری کی فتح ظاہر ہوتی ہے‘، 87 اراکین نے درخواست کے حق میں ووٹ دیا، اسرائیل، امریکا اور دیگر 24 ممالک نے مخالفت کی اور 53 نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
اسرائیل کی نئی حکومت نے مغربی کنارے میں آباد کاری مزید مستحکم کرنے کا وعدہ کیا ہے لیکن نیتن یاہو نے انضمام کے حوالے سے فوری اقدامات پر کوئی واضح حکمت عملی نہیں بتائی۔
اسرائیل نے فلسطین کے علاقوں مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر قبضہ کر رکھا ہے جبکہ عالمی سطح پر اس کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے اور اس قبضے کو اکثر ممالک نے غیرقانونی قرار دیا ہے۔
فلسطینی علاقوں پر قبضے کے بعد اسرائیل کا مؤقف ہے کہ یہ تاریخی اور سلامتی کے حوالے سے ان کی سرزمین ہے۔