حکومت نے ٹی ٹی پی کے دوبارہ سر اٹھانے کی وجہ عمران خان کو ٹھہرا دیا
وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور ایاز صادق نے سابق وزیر اعظم عمران خان کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دوبارہ سر اٹھانے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر کی جانب سے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر یہ الزام ایسے وقت میں عائد کیا گیا ہے جب ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔
دہشت گرد حملوں میں اضافے اور پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے گزشتہ سال ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا حوالہ دیتے ہوئے رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ قوم نے عمران خان کی طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کی حکمت عملی کا نتیجہ دیکھ لیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’عمران خان نے اپنے دورِ حکومت میں دہشت گردی پر قابو نہیں پایا بلکہ انہوں نے ان لوگوں سے مذاکرات کی اجازت دی جنہوں نے آرمی پبلک اسکول پشاور میں بچوں کو شہید کیا تھا اور اب ان مذاکرات کی وجہ سے دہشت گردی کی ایک نئی لہر شروع ہوگئی ہے‘۔
سابق اسپیکر نے سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کی فتح کو یقینی بنانے میں اپنا کردار واضح کریں۔
انہوں نے کہا کہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ اُن پر 2018 میں پی ٹی آئی میں شامل ہونے کے لیے دباؤ تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جنرل قمر جاوید باجوہ نے عمران خان کو جتنی حمایت فراہم کی اتنی ماضی میں کسی اور وزیر اعظم کو نہیں دی گئی، لیکن وہ اپنے محسنوں کے احسان فراموش ہیں اور اب سابق آرمی چیف کو بدنام کر رہے ہیں، انہوں نے علیم خان اور جہانگیر خان ترین کے ساتھ بھی یہی کیا‘۔
ایاز صادق نے کہا کہ ’وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی، عمران خان پر احسان کرتے ہوئے محتاط رہیں، میں عمران خان کو 1960 کی دہائی سے جانتا ہوں، ان کی خصلتیں تبدیل نہیں ہو سکتیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’جو شخص ریاست مدینہ کی باتیں کرتا تھا اس نے توشہ خانہ سے 6 ارب روپے کے تحائف لے کر کرپشن کی، ٹیکس گوشواروں میں ان میں سے محض ایک تحفہ ظاہر کیا اور باقی ہڑپ کرلیا، ریاست مدینہ کے دعویدار کسی کا مال چوری نہیں کرتے اور نہ چھپاتے ہیں‘۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ عمران خان نے ہمیشہ سربراہ مسلم لیگ (ن) نواز شریف کو برا بھلا کہا لیکن وہ ہمیشہ پی ٹی آئی چیئرمین کو شائستہ انداز میں مخاطب کرتے ہیں۔
وفاقی وزیر نے الزام عائد کیا کہ مریم نواز کو جہاں قید کیا گیا تھا وہاں عمران خان نے جیل کے باتھ رومز میں بھی جاسوسی کیمرے نصب کروائے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ’عمران خان کو اقتدار میں لانے والے پی ٹی آئی کے 4 سالہ دور حکومت میں ملک کو پہنچنے والے مالی نقصان کے ذمہ دار ہیں کیونکہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں قومی قرضہ دوگنا ہو کر 44 ارب ڈالر ہو گیا‘۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پرویز الہٰی اور ان کے صاحبزادے مونس الہٰی کے درمیان ہونے والی گفتگو سن کر یہ تاثر ملتا ہے کہ پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کے عوض مسلم لیگ (ق) کو محض 20 سیٹوں کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔
تاہم ایاز صادق نے مسلم لیگ (ق) کو متنبہ کیا کہ 2018 کے انتخابات کے دوران پی ٹی آئی کو ملنے والی بیساکھیاں آئندہ عام انتخابات میں غائب ہوجائیں گی جس کے بعد پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کو اپنے بل بوتے پر الیکشن لڑنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایک طرف عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سیاسی لڑائی خود لڑیں گے اور دوسری طرف اپنے خلاف احتساب کی کارروائی سے بچنے کے لیے وہ اسٹیبلشمنٹ سے درخواست کر رہے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی چیئرمین کا پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا ارادہ ہوتا تو وہ نومبر میں پنڈی جلسے کے اعلان کے فوراً بعد ایسا کرتے۔
انہوں نے کہا کہ اگر وزیر اعلیٰ پنجاب کو اپنے عہدے پر برقرار رہنے کے لیے مطلوبہ تعداد میں رکن صوبائی اسمبلی کی حمایت حاصل ہے تو پرویز الہٰی اعتماد کے ووٹ میں تاخیر کیوں کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بلدیاتی انتخابات اپریل میں ہوں گے جبکہ عام انتخابات 15 اگست 2023 کے بعد ہوں گے جب اسمبلیاں اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرلیں گی۔