• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

پرویز الہیٰ اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد اسمبلی تحلیل کر دیں گے، عمران خان

شائع December 26, 2022
عمران خان نے لاہور کے زمان پارک میں  اپنی رہائش گاہ پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ  اپریل میں انتخابات ہوتے دیکھ رہا ہوں۔—فوٹو:پی ٹی آئی ٹوئٹر
عمران خان نے لاہور کے زمان پارک میں اپنی رہائش گاہ پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اپریل میں انتخابات ہوتے دیکھ رہا ہوں۔—فوٹو:پی ٹی آئی ٹوئٹر

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ لینے کے فوری بعد پنجاب اسمبلی تحلیل کر دیں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عمران خان کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کہ پی ٹی آئی اراکین اسمبلی کے درمیان اس حوالے سے صلاح مشورے جاری ہیں کہ اتحادی مسلم لیگ (ق) کے صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل میں تاخیر کے مشورے پر جو کہ بظاہر اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے آرہا ہے سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔

عمران خان نے لاہور کے زمان پارک میں واقع اپنی رہائش گاہ پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد صاحب اختیار لوگ انتخابات کرانے پر مجبور ہوں گے اور میں اپریل میں انتخابات ہوتے دیکھ رہا ہوں۔

انہوں نے اسی سانس میں واضح طور پر دعویٰ کیا کہ میں نئی فوجی اسٹیبلشمنٹ سے رابطے میں ہوں ۔

پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ وزیر اعلیٰ 11 جنوری سے قبل اعتماد کا ووٹ لے لیں جب کہ اسی تاریخ کو وزیر اعلیٰ اور ان کی کابینہ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے گورنر کے ’غیر آئینی‘ حکم کے خلاف پنجاب حکومت کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ میں اگلی سماعت ہوگی۔

صرف ایک روز قبل عمران خان نے مارچ یا اپریل میں نئے انتخابات کی امید ظاہر جب کہ اس سے ایک روز قبل انہوں نے کہا تھا کہ سنگین معاشی صورتحال کے باعث نئے انتخابات فروری یا مارچ میں لازمی ہونے چاہییں۔

انہوں نے ایک بار پھر اپنے مؤقف کو دہرایا کہ نئے انتخابات کیوں ضروری کیوں ہیں اور کس طرح سے نئے عوامی مینڈیٹ والی حکومت ڈوبتی ہوئی معیشت سنبھال سکتی ہے اور اسے دوبارہ ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔

اگرچہ عوام میں مسلم لیگ (ق) عمران خان کے فیصلے پر مکمل اعتماد اور حمایت کا اظہار کر رہی ہے، تاہم وزیراعلیٰ پرویز الٰہی پنجاب اسمبلی کی مدت پوری ہونے تک اس کی تحلیل میں تاخیر کے حامی ہیں۔

وزیر اعلیٰ پنجاب کے صاحبزادے مونس الٰہی جو کہ عمران خان کے ساتھ براہ راست بات چیت کر رہے ہیں نے تحریک انصاف کو اعتماد کے ووٹ کے حصول تک اپنے اراکین اسمبلی کو پارٹی کے ساتھ جوڑ کر رکھنے کا مشورہ دیا ہے اور تجویز دی ہے کہ پہلے لاہور ہائی کورٹ کو فیصلہ کرنے دیں کہ گورنرکی جانب سے جاری اجلاس کے دوران اجلاس بلانے کا حکم دینا اور وزیر اعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنا درست ہے یا نہیں؟

پی ٹی آئی ذرائع نے بتایا کہ پارٹی اس بات پر بھی تبادلہ خیال کر رہی ہے کہ کیا وہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے مطلوبہ تعداد یعنی 186 اراکین کو ایوان میں جمع کر سکتی ہے جب کہ کچھ ایم پی اے بیرون ملک ہیں، تاہم پارٹی پراعتماد ہے کہ بدترین صورت میں وہ پرویز الٰہی کو رن آف الیکشن میں دوبارہ وزیر اعلیٰ منتخب کرانے میں کامیاب ہو جائے گی۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ق) کی قیادت یہ خبردار کرنے میں حق بجانب ہے کہ عمران خان پہلے اس بات کو یقینی بنائیں کہ دونوں ایوانوں کے تحلیل ہونے کے 90 روز کے بعد پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کرا دیے جائیں گے۔

اس تناظر میں پی ٹی آئی چیئرمین نے میڈیا کو بتایا کہ اگر انتخابات میں تاخیر ہوتی ہے تو بھی ان کی پارٹی کو کوئی پروا نہیں کیونکہ موجودہ وفاقی حکومت کو عوامی غصے کا سامنا ہوگا۔

عمران خان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پی ٹی آئی نے 17 دسمبر کو پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں اس لیے فوری طور پر تحلیل نہیں کیں کیونکہ اسے اپنے اتحادیوں کو اس حوالے سے اعتماد میں لینا تھا۔“

عمران خان کی جانب سے 23 دسمبر کو دونوں اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا اعلان کرنے سے ایک دن قبل یعنی 16 دسمبر کو وزیر اعلیٰ پنجاب نے راولپنڈی کا دورہ کیا تھا اور پی ٹی آئی سربراہ کو اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا مشورہ لے کر واپس آئے تھے۔

پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد اسمبلی کو فوری تحلیل پر زور دیتے ہوئے عمران خان نے وزیر اعلیٰ کے ارادوں کے بارے میں سوال پر تحمل کا مظاہرہ کیا، انہوں نے کہا اچھا کھلاڑی وہ ہوتا ہے جو ہر گیند کا سامنا کرتا ہے۔

دوسری جانب پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) سیٹ کے درمیان ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے مشاورت بھی جاری ہے جب کہ دونوں جماعتیں اپنے اتحاد کو جاری رکھنا چاہتی ہیں، تاہم سیٹوں کی تعداد کے بارے میں عمران خان نے کوئی واضح جواب نہیں دیا۔

اگرچہ اطلاعات ہیں کہ مسلم لیگ (ق) 2018 کے عام انتخابات میں حاصل ہونے والی سیٹوں کے مقابلے میں بڑا حصہ چاہتی ہے جب کہ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ق) کو نشستیں دی جائیں گی جہاں اس کی جیت کے امکانات ہیں۔

مونس الٰہی کہہ چکے ہیں کہ مسلم لیگ (ق) چاہتی ہے کہ دونوں اتحادی جماعتیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا فیصلہ کریں جب کہ پنجاب اسمبلی جلد تحلیل ہونے والی ہے، ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی سربراہ نے پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی جس کی 3 ملاقات ہوئیں اور اس دوران سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر بات چیت ہوئی۔

دونوں اتحادیوں نے اب تک وسطی اور جنوبی پنجاب کی حلقہ بندیوں کے معاملات کو حتمی شکل دی ہے جب کہ مونس الہیٰ نے ان خبروں کو مسترد کر دیا کہ مسلم لیگ (ق) پنجاب میں 30 صوبائی اور 15 قومی اسمبلی کی نشستوں کا مطالبہ کر رہی ہے، مونس الٰہی کو امید ہے کہ مسلم لیگ (ق) کو نشستوں کا بڑا حصہ ملے گا جب کہ اس مرتبہ صرف سیاست دان مشاورت کر رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کے سینئر رہنما فواد چوہدری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کی حمایت کے بغیر مسلم لیگ (ق) آئندہ انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کر سکے گی، انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ق) کو ایڈجسٹمنٹ کے تحت وہ سیٹیں ملیں گی جہاں اس نے جیتنے کی اپنی طاقت دکھائی۔

انہوں نے واضح کیا کہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے درمیان اب تک گجرات اور گوجرانوالہ اضلاع میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر بات ہوئی ہے۔

قبل ازیں، پی ٹی آئی سربراہ عمران خان نے قائداعظم محمد علی جناح کے یوم پیدائش پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ قائد محمد علی جناح کے پاکستان کے وژن کو سمجھنے میں ناکام رہنے کی ایک بڑی وجہ قانون کی بالا دستی نہ ہونے ک باعث انصاف کی عدم فراہمی ہے۔

دوسری جانب، پی ٹی آئی سربراہ نے میڈیا اسٹریٹجی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت بھی کی اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کیا۔

ذرائع نے بتایا کہ پی ٹی آئی قیادت نے پی ڈی ایم حکومت کے خلاف میڈیا پر جارحانہ حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کیا اور موجودہ حکمرانوں کے مبینہ ملک دشمن اقدامات پر ’مہم‘ چلانے کا منصوبہ بنایا۔

اس دوران فیصلہ کیا گیا کہ پی ٹی آئی حکومت کی خراب کارکردگی اور ناکام خارجہ پالیسی پر تنقید کے علاوہ ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کو بھی اجاگر کرے گی۔

میڈیا اسٹریٹجی کمیٹی نے سینیٹر اعظم سواتی کے لیے آواز اٹھانے اور احتساب کے عمل میں خلل ڈالنے پر حکومت کی سرزنش کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024