اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات مؤخر کرنے کا بل قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ سے بھی منظور
قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے بھی اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات کے قانون میں ترامیم کے بل کی منظوری دے دی، جس کے تحت وفاقی دارالحکومت کی یونین کونسلز کی تعداد 101 کے بجائے 125 ہوگی۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت اجلاس ہوا جہاں اپوزیشن اراکین نے شدید ہنگامہ آرائی کی۔
وزیر مملکت برائے قانون سینیٹر شہادت اعوان نے سینیٹ میں اسلام آباد بلدیاتی انتخابات ترمیمی بل 2022 پیش کیا۔
سینیٹ میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے شدید ہنگامہ آرائی اور نعرے بازی کی گئی۔
چیئرمین سینیٹ کے مطابق بل کے حق میں 24 ووٹ آئے جبکہ بل کی مخالفت میں 12 ووٹ ڈالے گئے۔
جس کے بعد اسلام آباد بلدیاتی انتخابات ترمیمی بل 2022 سینیٹ سے بھی منظور ہوگیا، قومی اسمبلی میں مذکورہ بل پہلے ہی منظور کیا جاچکا ہے۔
اسلام آباد بلدیاتی انتخابات بل فوری طور نافذ العمل ہو گا۔
مجوزہ ترمیم کے مطابق اسلام آباد کی یونین کونسل کی تعداد 125 ہو گی، میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب براہ راست ہو گا جبکہ میئر اور ڈپٹی میئر کے لیے ایک ہی ووٹ کاسٹ ہوگا۔
ترمیم میں بتایا گیا کہ میئر اور ڈپٹی میئر کی نشست کسی بھی صورت خالی ہونے پر دوبارہ براہ راست انتخاب ہو گا۔
ترمیم کے مطابق میئر اور ڈپٹی میئر کے براہ راست انتخاب کے لیے ووٹنگ یونین کونسل کے الیکشن کے روز ہی ہوگی۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز (22 دسمبر) کو قومی اسمبلی نے اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات کے قانون میں ترامیم کے بل کی منظوری دے دی تھی۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق 31 دسمبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات سے قبل 10 روز سے بھی کم وقت کے دوران ایوان میں بل پیش کیا گیا تھا۔
متنازع بل پر ووٹ دینے سے پہلے جماعت اسلامی کے مولانا عبدالاکبر چترالی نے 31 دسمبر کو شیڈول ہونے والے انتخابات سے ایک ہفتے قبل قانون میں ترمیم کے حوالے سے عین موقع پر سوال اٹھایا تھا۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئین سے کھیلنا بند کریں، آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنا حکمرانوں کا معمول بن گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کے مؤخر ہونے کا یہ اقدام غیر آئینی تھا، انہوں نے اس حوالے سے شدید احتجاج ریکارڈ کروایا۔
پیش رفت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعلیٰ عہدیدار نے ڈان کو بتایا تھا کہ الیکشن کمیشن اپنے مؤقف پر قائم رہے گا کیونکہ ہم شیڈول کے مطابق انتخابات کروانے کا عزم رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ کسی ایکٹ میں ترامیم آئینی دفعات کو ختم نہیں کر سکتی۔
ان کا کہنا تھا کہ انتخابی عمل کے تمام مراحل سمیت کاغذات نامزدگی جمع کرانے، جانچ پڑتال، اپیلٹ ٹربیونل کے فیصلے، امیدواروں کو حتمی شکل دینے، نشانات کی الاٹمنٹ، پولنگ اسکیم کا اعلان، پولنگ عملے کی تقرری، تربیت اور بیلٹ پیپرز کی چھپائی مکمل کر لی گئی ہے اور اب بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا مرحلہ بھی طے ہو چکا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن نے 20 دسمبر کو اپنے حکم نامے میں نشاندہی کی تھی کہ وفاقی حکومت نے آئی سی ٹی لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2015 کی دفعہ 4 (4) کے تحت الیکشن کمیشن کی منظوری کے بغیر یونین کونسل کی تعداد 101 سے بڑھا کر 125 کردی۔
مذکورہ دفعہ کے مطابق وفاقی حکومت الیکشن کمیشن کی رضامندی سے کمیشن کی جانب سے حلقہ بندیوں کی کارروائی شروع کرنے کے بعد مذکورہ دفعہ کے تحت کسی مقامی علاقے کی حدود کو تبدیل کر سکتی ہے، لیکن انتخابات کے لیے انتخابی شیڈول کے اعلان کے بعد مقامی علاقے میں حکومت اس کی حدود کو تبدیل نہیں کرے گی۔
انہوں نے کہا تھا کہ اس مرحلے پر بل میں ترمیم کا اقدام نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ غیر قانونی بھی ہے۔
لوکل گورنمنٹ قانون میں ترامیم
یونین کونسل کی تعداد میں اضافے کے علاوہ میئر اور ڈپٹی میئر کے دفاتر کے لیے براہ راست انتخابات کی فراہمی قومی اسمبلی سے منظور کیے گئے بلدیاتی انتخابات کے ترمیمی بل کی اہم خصوصیات میں شامل ہیں۔
ترمیم شدہ اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری قانون کی دفعہ 6 (1) کے تحت اسلام آباد میں 125 یونین کونسلز ہوں گی، وفاقی حکومت وزارت داخلہ کی سفارش پر سرکاری گزٹ میں نوٹی فکیشن کے ذریعے وقتاً فوقتاً یونین کونسل کی تعداد میں اضافہ یا کمی کر سکتا ہے۔
اسی طرح متبادل سیکشن 12(3) کے مطابق میئر اور ڈپٹی میئر کا الیکشن براہ راست ہوگا، دونوں عہدوں کے لیے ایک ہی ووٹ کاسٹ ہوگا۔
دفعہ 11 کے تحت میئر اور ڈپٹی میئر کے براہ راست انتخاب کے لئے ووٹنگ یونین کونسل کے الیکشن کے روز ہی ہوگی۔