فیفا ڈائری (آخری قسط): مجموعی طور پر میں نے قطر ورلڈ کپ کو کیسا پایا؟
اس سلسلے کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے۔
قطر میں منعقد ہونے والا ورلڈ کپ ہر اعتبار سے ایک کامیاب اور یادگار ایونٹ رہا جس میں کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ اتنے بڑے ایونٹ کا ایک چھوٹے سے شہر میں انعقاد یقینی طور پر ایک بڑا چیلنج تھا۔
قطر کو سب سے زیادہ فائدہ یہ ملا تھا کہ اسے ورلڈ کپ کی تیاری میں 12 سال کا وقت ملا تھا۔ 2009ء میں قطر نے میزبانی کی بولی جیتی تھی اور یوں ان 12 سالوں میں قطر نے اچھا منصوبہ تیار کرلیا تھا۔ سرمایہ کاری بھی بھرپور کی گئی اور یوں انہوں نے مہنگے ترین عالمی کپ کی میزبانی کی۔
میں نے اس سے پہلے جو 2 ورلڈ کپ کور کیے تھے، اس کے مقابلے میں یہ کافی مختلف ورلڈ کپ تھا۔ اگر میں موازنہ کروں تو اس عالمی کپ میں بطورِ صحافی میرے پاس وقت نہیں تھا کیونکہ قطر ورلڈ کپ میں ایک دن میں 4، 4 میچ کھیلے گئے اور عمومی طور پر ایسا نہیں ہوتا۔
یہ شائقین کے لیے ایک انوکھا تجربہ بھی تھا کیونکہ وہ ایک دن میں 2 سے زائد میچ اسٹیڈیم میں جاکر دیکھ سکتے تھے۔ لیکن صحافیوں کے لیے انوکھی بات یہ تھی کہ وہ بھی ایک دن میں 2 گروپ مقابلے اسٹیڈیم جاکر کور کر سکتے تھے اور یہ سہولت پہلے کسی بھی ورلڈ کپ میں حاصل نہیں تھی۔
اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ چونکہ قطر کا رقبہ چھوٹا ہے اور تمام اسٹیڈیمز دوحہ کی حدود میں ہی واقع تھے اس لیے قطر کو ایک دن میں 4 میچ کروانے کی اجازت دی گئی۔ تو یہ ایک ایسا فرق تھا جس نے قطر عالمی کپ کو گزشتہ عالمی کپ سے مختلف بنایا۔
لیکن کہنے اور سننے میں ایک دن میں 4 میچ کا انعقاد جتنا آسان لگ رہا ہے حقیقت اس کے خلاف ہے۔ یہ پوری انتظامیہ کے لیے بہت بڑا چیلنج تھا کیونکہ انہیں ایک میچ کے بعد فوری طور پر دوسرے میچ پر اپنی توجہ مرکوز کرنی پڑ رہی تھی، اور ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا اس لیے یہ ایک منفرد تجربہ تھا۔
میں نے برازیل اور روس کے عالمی کپ بھی کور کیے ہیں اور مجھے قطر اور گزشتہ عالمی کپ میں جو واضح فرق لگا وہ یہ تھا کہ یہاں قطر کے مقامی لوگوں میں ورلڈ کپ کے لیے ویسا جنون نہیں تھا جو برازیل اور روس کے لوگوں میں تھا۔
اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہاں عوامی مقامات اتنے زیادہ نہیں ہیں اس لیے وہ جوش محسوس نہیں ہورہا تھا جو ورلڈ کپ کے دوران ہوتا ہے یعنی پورا ملک ورلڈ کپ کے سحر میں جکڑا ہوتا ہے۔ ہاں بینرز اور پوسٹرز جگہ جگہ آویزاں تھے لیکن جو عوام میں فیفا ورلڈ کپ کے دوران ایک منفرد جوش و خروش ہوتا ہے، وہ مجھے قطر کے عوام میں نظر نہیں آیا۔
دیکھا جائے تو قطر ایسا ملک نہیں ہے جہاں لوگ فٹبال کے دیوانے ہوں۔ یہاں قطر کے لوگ اگر میچ دیکھنے آتے بھی تھے تو خاموشی سے اپنے فون استعمال کر رہے ہوتے تھے اور بعض اوقات تو پورا میچ دیکھے بغیر ہی روانہ ہوجاتے تھے۔
مطلب یہاں لوگوں کو فٹبال کے کھیل میں اتنی زیادہ دلچسپی ہی نہیں تھی۔ اسی لیے یہاں ’فین کلچر‘ بھی نظر نہیں آتا۔ قطر میں اس ایونٹ کے پیچھے پورا ملک نہیں بلکہ صرف اس کی قیادت کھڑی تھی۔ اس لیے اس عالمی کپ کا ماحول مقامی لوگوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے دیگر عالمی کپ کے ماحول سے کافی مختلف محسوس ہورہا تھا۔
رواں سال اپریل میں ورلڈ کپ کے گروپ ڈراز کے لیے میں قطر گیا تھا۔ میں نے اس موضوع پر تحریر بھی لکھی تھی کہ مجھے قطر کافی غیر معمولی میزبان ملک لگ رہا ہے۔ میں نے اپنی تحریر میں یہی لکھا تھا کہ مجھے خدشہ ہے کہ وہاں شاید ہی ورلڈ کپ کا جنون محسوس ہو اور ایسا ہی ہوا۔ وہاں کے عوام میں ورلڈ کپ کا جنون میں نے نہیں پایا۔ یہ ایک ایسا ورلڈ کپ تھا جہاں صرف فٹبال ہی کھیلی گئی اس کے علاوہ میدان کے باہر کچھ بھی نہیں ہوا۔
ہاں فین فیسٹول میں وہ ماحول تھا جس کی مجھے تلاش تھی لیکن عام دکان، کیفے یا مال سے یہ ظاہر ہی نہیں ہورہا تھا کہ یہ ملک ورلڈ کپ کا میزبان ہے۔
اگر انتظامات کی بات کی جائے تو وہ بہت بہترین تھے۔ اعلیٰ عالمی معیار کے اسٹیڈیمز بنے ہوئے تھے جن میں ساری سہولیات موجود تھیں۔ ویسے بھی اگر آپ انتظامات پر 20 ارب ڈالرز سے زائد خرچ کریں گے تو پھر انتطامات تو اچھے ہی ہوں گے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ان کا انفراسٹرکچر بہت بہترین تھا۔ اگر ایک دن میں 4 میچ کروائے گئے تو پھر اس کے مطابق میٹرو سسٹم اتنا ہی تیز تھا کہ شائقین ایک اسٹیڈیم سے دوسرے اسٹیڈیم وقت پر پہنچ رہے تھے۔ دوسری جانب صحافیوں کے لیے بھی شٹل سروس چلائی گئی جو بہت بہترین تھی۔ لہٰذا انفراسٹرکچر اور دیگر انتظامات میں قطر کو میں پورے نمبر دوں گا۔
قطر میں مقیم تارکین وطن جن میں پاکستانی، بھارتی اور بنگلادیشی شامل تھے، ان کی عالمی کپ میں دلچسپی قطر کے شہریوں سے کئی گنا زیادہ تھی۔ انہی لوگوں نے اسٹیڈیمز بھرے تھے اور سب سے زیادہ ٹکٹس بھی انہوں نے ہی خریدے تھے۔ عالمی کپ کے لیے ان لوگوں کا جوش دیدنی تھا۔ حتیٰ کے برازیل کی ٹیم جب قطر پہنچی تب کیرالہ والے ہی ان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔ قطر کے شہریوں میں وہ جذبات نہیں تھے جو جذبات عالمی کپ کے حوالے سے وہاں کے تارکینِ وطن کے تھے۔
اب اگر میں بطورِ صحافی بات کروں تو قطر نے ہم صحافیوں کے لیے بھی بہت بہترین انتظامات کیے تھے۔ یہاں ایک بڑا مرکزی میڈیا سینٹر بنایا گیا تھا جہاں تمام اہم پریس کانفرنسز ہو رہی تھیں۔
گزشتہ عالمی کپ میں یہ ہوتا تھا کہ ہر اسٹیڈیم کا اپنا میڈیا سینٹر ہوتا تھا جہاں اس شہر میں موجود تمام صحافی کام کرتے تھے۔ اس کے برعکس قطر میں چونکہ اسٹیڈیم کے میڈیا سینٹر چھوٹے تھے اس لیے مرکزی میڈیا سینٹر مرکز بنا ہوا تھا۔ ایک دن میں 4 میچ تھے اس لیے کوریج کا زیادہ تر کام مرکزی میڈیا سینٹر سے ہورہا تھا۔
یہ میڈیا سینٹر اس طرز کا بنا ہوا تھا جہاں بہت گنجائش تھی۔ وہاں کیفے بھی زیادہ تھے جبکہ وہاں 5 اسٹار بوفے بھی موجود تھا۔ میکڈونلڈز کا کیفے بھی تھا۔ اسٹور، ہیئر ڈریسر، بینک، نماز کی جگہ اور آرام کرنے کے لیے لاؤنجز بھی بنے تھے۔ کام سے بریک لینا ہو تو وہاں فوس بال ٹیبلز بھی موجود تھیں۔ کافی بھی مل رہی تھی جبکہ پانی بھی مفت مل رہا تھا۔ جن صحافیوں کو شراب پینی تھی ان کے لیے وہاں بار بھی موجود تھا جبکہ وہاں ایک ورچؤل اسٹیڈیم بھی تھا جہاں آپ میچ 8 اسکرینز پر دیکھ سکتے تھے۔
یہاں نئی چیزیں دیکھنے کو ملیں اور اولمپکس کی طرز کا میڈیا سینٹر ہمیں ورلڈ کپ میں پہلی بار دیکھنے کو ملا۔ غرض مرکزی میڈیا سینٹر میں تمام سہولیات موجود تھیں حتیٰ کہ وہاں سے بسیں بھی چل رہی تھیں جو صحافیوں کو گھروں تک پہنچا رہی تھیں۔
تو یہ سب ذمہ داریاں بہت بہترین منصوبہ بندی کے تحت انجام دی گئیں۔ ہاں تھوڑے جھول تھے جیسے ایک دو بار شٹل کے ڈرائیورز راستہ بھٹک گئے تھے جس کی وجہ سے ہم دیر سے اسٹیڈیم پہنچے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قطر نے بیرونِ ملک سے ڈرائیورز کی ٹیم کو بلایا تھا جو گوگل میپز کی بنیاد پر راستے تلاش کررہے تھے۔
تاہم یہ تمام چیزیں تو عالمی کپ کا حصہ ہوتی ہی ہیں مگر اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ قطر نے سہولیات بھرپور فراہم کی تھیں۔ جب 6 بجے اور 10 بجے میچ ہورہے تھے تب بھی ان کی سہولیات بہترین تھیں۔ وہ ہمیں پہلے ہی مطلع کر رہے تھے کہ اس وقت پر بس چلے گی اور ان کی کوشش یہی تھی کہ ہم میچ شروع ہونے سے 45 منٹ پہلے اسٹیڈیم پہنچ جائیں۔ تو میڈیا کے لیے قطر کے انتظامات شاندار تھے۔
تبصرے (1) بند ہیں