• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے ارشد شریف کی والدہ کا بیان ریکارڈ کرلیا

شائع December 22, 2022
تحقیقاتی ٹیم کے ارکان ممکنہ طور پر کراچی بھی پہنچیں گے — فائل فوٹو: ارشد شریف/فیس بُک
تحقیقاتی ٹیم کے ارکان ممکنہ طور پر کراچی بھی پہنچیں گے — فائل فوٹو: ارشد شریف/فیس بُک

خصوصی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے اسلام آباد میں مرحوم صحافی ارشد شریف کی والدہ کا بیان ریکارڈ کرلیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اس کے علاوہ تحقیقاتی ٹیم کے ارکان ممکنہ طور پر کراچی بھی پہنچیں گے جہاں دو بھائیوں وقار اور خرم کے اہل خانہ کا بیان بھی ریکارڈ کیا جائے گا جنہوں نے کینیا میں ارشد شریف کی میزبانی کی تھی۔

اس سے قبل حکومت کی جانب سے مؤقف سامنے آیا تھا کہ دونوں بھائیوں کی کینیا سے وطن واپسی پر بھی غور کیا جارہا ہے۔

دوسری جانب اس سے قبل وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا تھا کہ صحافی کو قتل کیا گیا اور واقعے کی مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ معروف صحافی کے قتل کی تحقیقات کرنے والی خصوصی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ارکان پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں کیونکہ ٹیم میں موجود ایک افسر اس سے قبل دو ہائی پروفائل کیسز کی مناسب تحقیقات میں ناکام رہے تھے۔

اسلام آباد میں ایس ایس پی اور ڈی آئی جی آپریشنز کے اہم عہدوں پر خدمات انجام دینے والے اہلکار نے جنوری 2021 میں اسامہ ستی کے قتل کی تحقیقات کی قیادت کی تھی، پولیس اہلکاروں کی گاڑی پر فائرنگ سے 22 سالہ اسامہ ستی جاں بحق ہوگئے تھے۔

اس کے علاوہ 10 سالہ بچی فرشتہ کے ریپ کے بعد قتل کے واقعے میں ابتدائی طور پر بچی کی گمشدگی کی تحقیقات کے وقت اِن پولیس افسران پر مبینہ طور پر اہل خانہ کے ساتھ بدسلوکی کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔

ان ہلاکتوں کی تحقیقات کے لیے کی گئی انکوائری ٹیم نے ایس ایس پی اور ڈی آئی جی آپریشنز کو اپنی قانونی ذمہ داری نبھانے میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔

سال 2019 میں ایس ایس پی آپریشنز اور ڈی آئی جی آپریشنز کی قیادت میں فرشتہ قتل کیس کی تحقیقات کا آغاز کیا گیا تھا، یہ دونوں عہدے اُس وقت ایک ہی افسر کے پاس تھے اس کے ساتھ ساتھ وفاقی پولیس چیف کو بھی قانونی ذمہ داریاں پوری نہ کرنے اور کیس کی ناکام تحیققات کا ذمہ داری ٹھہرایا گیا تھا۔

چونکہ یہ افسر بیک وقت دونوں عہدوں پر فائز تھے، انکوائری رپورٹ میں کہا گیا کہ کیس کے بروقت اندراج کو یقینی بنانا اور متعلقہ ایس ایچ اوز کو تعینات کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔

ریکارڈ کے مطابق بدسلوکی کے الزام میں انسپکٹر جنرل یا ڈی آئی جی آپریشن کو پولیس اسٹیشن میں تفتیش کے لیے ایک بار بھی نہیں بلایا گیا، رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ اسپرٹ آف چیپٹر 22 آف پولیس رولز 1934 کے تحت زیر نگراں افسران کو ذاتی طور پر تفتیش کے لیے تھانے بلایا جاتا ہے اور رجسٹر نمبر 13 میں اپنے ریمارکس درج کرنے ہوتے ہیں۔

اسامہ ستی قتل کیس کی جوڈیشل انکوائری میں بھی اعلیٰ پولیس اہلکاروں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا کہ انہوں نے بہترین تربیت یافتہ فورس انسداد دہشت گردی اسکواڈ / کرائسز رسپانس ٹیم کو سری نگر ہائی وے میں تعینات کیا جن کی تربیت ایسے ہوئی ہے کہ وہ ایسی صورتحال سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ ریسکیو 1122 ٹیم کو ’غلط پتا‘ دیا گیا، بعد ازاں انہیں اطلاع دی گئی کہ کوئی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا اور وائرلیس کنٹرول کے ذریعے ریسکیو 1122 کو واپس جانے کا کہا گیا تھا۔

ڈان نے ان افسران سے اس حوالے سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024