• KHI: Maghrib 5:51pm Isha 7:12pm
  • LHR: Maghrib 5:06pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:06pm Isha 6:35pm
  • KHI: Maghrib 5:51pm Isha 7:12pm
  • LHR: Maghrib 5:06pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:06pm Isha 6:35pm

متنازع ٹوئٹس کیس میں اعظم سواتی کی درخواست ضمانت مسترد

شائع December 21, 2022
وکیل استغاثہ رضوان عباسی نے عدالت کو ٹوئٹر پر اکاؤنٹ ویریفکیشن (بلیو ٹک) کا طریقہ کار بتایا — فائل فوٹو: ڈان نیوز
وکیل استغاثہ رضوان عباسی نے عدالت کو ٹوئٹر پر اکاؤنٹ ویریفکیشن (بلیو ٹک) کا طریقہ کار بتایا — فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر اعظم خان سواتی کی درخواست ضمانت مسترد کردی۔

اسلام آباد کی خصوصی عدالت کے اسپیشل جج اعظم خان نے تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی کی درخواست پر سماعت کی۔

دوران سماعت وکیل استغاثہ رضوان عباسی نے اعظم سواتی کی درخواستِ ضمانت پر حتمی دلائل دیے۔

وکیل استغاثہ رضوان عباسی نے ٹوئٹر پر اکاؤنٹ ویریفکیشن (بلیو ٹک) کا طریقہ کار بتایا۔

پراسیکوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ سینیٹر اعظم سواتی کے اکاؤنٹ پر بلیو ٹِک ہے، انہیں مشہور شخصیات نے فالو کیا ہوا ہے۔

استغاثہ نے دلائل دیے کہ اعظم سواتی کو فالو کرنے والی مشہور شخصیات میں سیاسیتدان اور صحافی بھی شامل ہیں اور اعظم سواتی کبھی اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے انکاری نہیں ہوئے۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ٹوئٹر اکاؤنٹ اعظم سواتی کا نہیں۔

سرکاری وکیل نے کہا کہ اس اکاؤنٹ پر اعظم سواتی نے افواجِ پاکستان کے خلاف ایک بیانیہ بنانے کی کوشش کی ہے۔

پراسیکیوٹر رضوان عباسی اور سرکاری وکیل نے اعظم سواتی کی درخواستِ ضمانت کی مخالفت کی۔

تاہم اعظم سواتی کے وکیل سہیل خان نے دلائل دیے کہ ٹوئٹس کے اسکرین شاٹس پر سائبر کرائم کا مقدمہ نہیں بنتا۔

پراسیکوٹر نے کہا کہ درخواست گزار کے وکیل نے دلائل کے دوران ایک بار نہیں کہا کہ ٹوئٹر اکاؤنٹ اعظم سواتی کا نہیں۔

اعظم سواتی کے وکیل نے کہا کہ اسکرین شاٹس کی بنیاد پر کیس بنایا گیا ہے۔

دونوں فریقین کے حتمی دلائل سننے کے بعد عدالت نے سینیٹر اعظم سواتی کی درخواستِ ضمانت مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اعظم سواتی نے ایک ہی جرم دو بار کیا ہے۔

اعظم سواتی کی دوسری بار گرفتاری

27 نومبر کو پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم خان سواتی کو فوجی افسران کے خلاف متنازع ٹوئٹ کرنے پر وفاقی تحقیقاتی ادارے نے گرفتار کیا تھا، اس سے قبل بھی انہیں 12 اکتوبر کو آرمی چیف کے خلاف ٹوئٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔

ایف آئی اے کی جانب سے سابق وفاقی وزیر کے خلاف پیکا 2016 کی دفعہ 20 اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 131، 500، 501، 505 اور 109 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر میں تین ٹوئٹر اکاؤنٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اعظم سواتی اور مذکورہ اکاؤنٹس نے غلط عزائم اور مذموم مقاصد کے ساتھ ریاستی اداروں، سینئر افسران سمیت جنرل قمر جاوید باجواہ کے خلاف انتہائی جارحانہ انداز میں ٹوئٹر پر مہم کا آغاز کیا۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اس طرح نام لے کر اور الزام عائد کرنے والی اشتعال انگیز ٹوئٹس ریاست کو نقصان پہنچانے کے لیے مسلح افواج کے افسران کے درمیان تفریق پیدا کرکے بغاوت کی شرارت ہے۔‘

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ اشتعال انگیز ٹوئٹس پر تبصرے کرکے ملزمان نے فوجی افسران کو ان کی ذمہ داریوں اور وفاداری سے بہکانے کی کوشش کی اور اعظم سواتی کی طرف سے یہ بار بار کوشش کی جارہی تھی۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ اعظم سواتی نے غلط معلومات کی بنیاد پر رازداری کی خلاف وزری کی جو کسی افسر، سپاہی، سیلر یا ایئرمین کو میوٹنی یا اپنے فرائض میں کوتاہی پر اکسانے کی کوشش ہے، مزید کہا گیا ہے کہ ایسے بیانات سے عوام میں خوف پیدا ہونے کا بھی امکان ہے۔

کارٹون

کارٹون : 26 دسمبر 2024
کارٹون : 25 دسمبر 2024