• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

’پرویز الٰہی خود اپنے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط نہیں کریں گے‘

شائع December 22, 2022

لکھاری، مصنف اور صحافی ہیں۔
لکھاری، مصنف اور صحافی ہیں۔

گزشتہ ہفتے سیاست کے تھیٹر پر کئی مضحکہ خیز واقعات پیش آئے۔

طویل انتظار کے بعد عمران خان نے پنجاب اسمبلی کو تحلیل کرنے کا اعلان کردیا جبکہ وزیرِاعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے واضح کردیا ہے کہ انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔ پرویز الٰہی کے اس بیان کی وجہ ممکنہ طور پر سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف عمران خان کی غیرمناسب گفتگو ہے۔

شاید یہ ان دونوں کے رشتے کا اختتام نہ ہو لیکن یہ نظر آرہا ہے کہ دونوں کی راہیں جدا ہونے والی ہیں۔ ان تازہ ترین واقعات سے سیاسی ڈرامے میں نیا موڑ آگیا ہے۔ سیانے وزیرِاعلیٰ کی واپسی ہوچکی ہے اور اب وہ خود پر بولی لگانے والے کی تلاش میں ہے۔ لگ رہا ہے کہ عمران خان کو چیک میٹ کردیا گیا ہے لیکن شطرنج کا یہ کھیل ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ یہ سیاسی چکر اور لین دین کا ایک نیا دور ہے، جس کا نتیجہ غیریقینی ہے۔

جس بات کی توقع تھی وہی ہوا۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے عمران خان کے 23 دسمبر کو اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے پر جوابی وار کرتے ہوئے وزیرِاعلیٰ پنجاب کے خلاف اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد جمع کروا دی ہے۔ جس تیزی سے ملکی سیاست تبدیل ہو رہی ہے اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ 5 دن کا نوٹس بھی بہت زیادہ لگ رہا ہے۔

قبل ازوقت انتخابات کی تمام تر کوششیں ناکام ہونے کے بعد اسمبلی تحلیل کرنا عمران خان کا آخری حربہ تھا۔ 2 بار اسلام آباد تک مارچ کی کوشش بھی انتخابی عمل کو تیز نہیں کرپائی تھی۔

عمران خان نے اب اپنی آخری چال چل دی ہے۔ ان کے خیال میں پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد پی ڈی ایم حکومت پر دباؤ بڑھے گا اور وہ آخرکار ان کے مطالبات مان لیں گے۔

اسی زعم میں سابق وزیرِاعظم عمران خان نے پنجاب میں اتحادی حکومت کے درمیان ہونے والے اختلافات کو بھی اہمیت نہیں دی۔ مسلم لیگ (ق) جس کا اس اتحاد میں سب سے اہم کردار ہے، وہ اسمبلی کی تحلیل سے متعلق شکوک میں مبتلا تھی۔

یہ اطلاعات بھی ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کچھ صوبائی اراکینِ اسمبلی کو بھی ایوان کی مدت ختم ہونے سے محض چند ماہ قبل تحلیل کے اس فیصلے سے تحفظات ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے عناصر ہیں جنہیں عمران خان نے قبل از وقت انتخابات کے لیے اپنے سخت فیصلوں میں بالکل نظرانداز کردیا ہے۔ 2 صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنا اتنا آسان بھی نہیں ہوتا جتنا پی ٹی آئی چیئرمین سمجھ رہے تھے۔

پرویز الٰہی خود اپنے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط نہیں کریں گے۔ وہ جانتے ہیں کہ صوبائی حکومت ختم ہونے کے ساتھ پی ٹی آئی سے ان کے اتحاد کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔ سابق آرمی چیف کے خلاف عمران خان کے طنزیہ انداز نے انہیں اس فیصلے پر اپنی عدم اطمینان کا اظہار کرنے کا بہانہ فراہم کردیا ہے۔ جبکہ پی ڈی ایم نے پنجاب میں موجود حکومتی اتحاد کے بیچ پیدا ہونے والی دراڑوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔

پی ڈی ایم کا صوبائی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد جمع کروانا سوچا سمجھا اقدام تھا، جس کے تحت انہوں نے عمران خان کی اسمبلی تحلیل کرنے کی تاریخ سے چند روز قبل پنجاب کے گورنر سے کہا کہ وہ وزیرِاعلیٰ پنجاب کے خلاف ایوان میں عدم اعتماد کا ووٹ کروائیں۔

اس کا اصل مقصد عمران خان کی چال کو ناکام بنانا ہے۔ اگرچہ گورنر کے اس مشورے پر متعدد سوالات اٹھیں گے جو ایک طویل قانونی جنگ کا باعث بن سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود پی ڈی ایم کے تمام مقاصد پورے ہوجائیں گے۔

قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ پی ڈی ایم کے اس اقدام کو وزیرِاعلیٰ کی کھلی حمایت حاصل ہے کیونکہ اس طرح وہ پنجاب میں اپنی حکومت ٹوٹنے سے روک سکتے ہیں۔ شاید یہ حقیقت بھی ہو۔ تختوں کے اس کھیل میں اب کچھ بھی حیران کُن نہیں رہا۔ جبکہ غیرجانبدار ہونے سے متعلق اسٹیبلشمنٹ کے دعوے کے باوجود ان کا کردار مشکوک ہے۔

رپورٹ کے مطابق وزیرِاعلیٰ پنجاب نے اپنے متنازعہ ٹی وی انٹرویو سے قبل راولپنڈی کا دورہ کیا تھا۔ اپنے انٹرویو میں انہوں نے سابق آرمی چیف کے خلاف غیر مناسب گفتگو کرنے پر عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیا جس نے اس تمام معاملے میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے حوالے سے سوالات کھڑے کردیے ہیں۔

پرویز الٰہی نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے مسلسل روابط کی تصدیق کردی ہے اور اشارہ دیا ہے کہ طاقتور ادارہ مزید عدم استحکام کا سبب بن سکتا ہے۔ اب یہ واضح ہوچکا ہے کہ وزیرِاعلیٰ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اشارے کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے۔

عمران خان کی سابق آرمی چیف کے خلاف غیر مناسب گفتگو کی وجہ سے واضح طور پر نئی فوجی کمان سے ان کا تعلق قائم نہیں ہوا ہے۔ پی ٹی آئی چیئرمین اپنی حکومت کے خاتمے میں سابق آرمی چیف کے مبیّنہ کردار کے حوالے سے تنقید کرتے آئے ہیں لیکن گزشتہ ماہ فوج کی کمان میں تبدیلی کے بعد ان کے بیانات مزید سخت ہوگئے ہیں۔

گزشتہ ہفتے عوام سے اپنے خطاب میں جہاں عمران خان نے اسمبلی کو تحلیل کرنے سے متعلق فیصلے کا اعلان کیا وہیں انہوں نے جنرل باجوہ پر تنقید کے نشتر برسائے اور انہیں اپنی حکومت میں ہونی والے تمام غلطیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

اس سے عمران خان کے ’رجیم چینج‘ کے بیانیے میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ اب وہ بیرونی سازش کا ذکر نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں کہ سابقہ فوجی قیادت نے انہیں اقتدار سے بے دخل کرنے کی سازش کی اور پی ڈی ایم حکومت کو اقتدار دیا۔ بیانات کی اس تبدیلی نے ان کی حکومت پر بھی سوالیہ نشانات کھڑے کردیے ہیں جو ہائبرڈ نظام کے نتیجے میں آئی تھی۔

عمران خان اب ان واقعات کو نئی شکل دے رہے ہیں جنہوں نے ان کی ساڑھے 3 سالہ حکومت کا تختہ الٹا تھا۔ یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں کہ پی ٹی آئی حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل تھی اور سابق حکومت کی انتظامیہ پر سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اثرانداز تھی۔ سیاست میں ادارے کی اتنی گہری مداخلت تھی کہ اس نے پورے جمہوری عمل کو مسخ کردیا ہے۔

بلاشبہ سابق آرمی چیف گزشتہ چند سالوں میں ہونے والی بہت سی کوتاہیوں کے ذمہ دار ہیں جس میں ہائبرڈ نظام کو مضبوط کرنے میں ان کا کردار بھی شامل ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس نظام کا سب سے زیادہ فائدہ عمران خان کو ہوا۔ ان کی حالیہ تقریر ایک ایسے سیاستدان کے مایوس کُن رویے کی ترجمانی کرتی ہے جو مکمل طور پر فوجی مدد پر منحصر تھا اور اب جب اسٹیبلشمنٹ نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا ہے تو وہ شدید غصے میں ہے۔

ابھی تک ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ عمران خان نے واقعی اپنے تجربے سے کوئی سبق سیکھا ہے۔ جمہوری سیاسی نظام میں ان کا یقین اب بھی متنازع ہے۔ اس سے تو کوئی انکار نہیں کہ قبل ازوقت انتخابات کا مطالبہ ایک جمہوری مطالبہ ہے مگر غیر سیاسی مدد کے انتظار کے بجائے انہیں اپنی جنگ منتخب جمہوی ایوانوں میں لڑنی چاہیے۔

آنے والے چند دنوں میں جو کچھ ہوگا اس سے ملک میں سیاسی استحکام ہرگز پیدا نہیں ہوگا۔ اگر پی ٹی آئی پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی تحلیل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تب بھی ضروری نہیں کہ ملک میں قبل ازوقت عام انتخابات کا انعقاد ہو۔

اس بات کا بھی کوئی امکان نہیں کہ دباؤ میں آکر وفاقی حکومت قومی اسمبلی تحلیل کرنے پر رضامند ہوجائے گی۔ خدشہ ہے کہ یہ ملک میں موجود سیاسی تقسیم میں مزید اضافہ کرسکتا ہے۔

ایسے ملک کے لیے یہ صورتحال کافی تشویشناک ہے جو ممکنہ ڈیفالٹ کے خطرے اور بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی کا سامنا کررہا ہے۔ سیاست کا یہ مضحکہ خیز تھیٹر مستقبل کی سیاسی صورتحال کے حوالے سے کچھ اچھا اشارہ نہیں دے رہا ہے۔


یہ مضمون 21 دسمبر 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

زاہد حسین

لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024