بنوں سی ٹی ڈی کمپلیکس کلیئر، سیکیورٹی فورسز کا بھرپور آپریشن، 25 دہشتگرد ہلاک، ترجمان پاک فوج
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے بنوں میں محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے کمپلیکس میں بھرپور آپریشن کیا، آپریشن کے دوران شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس میں 25 دہشت گرد مارے گئے، 3 گرفتار ہوئے اور 7 نے سرنڈر کیا۔
جیو نیوز کے پروگرام ’آپس کی بات ’ میں گفتگو کرتے ہوئے ترجمان پاک فوج نے کہا کہ 18 دسمبر 2022 کو بنوں میں سی ٹی ڈی کمپلیکس میں 35 دہشت گرد زیر تفتیش تھے، ان میں سے ایک نے سی ٹی ڈی کے ایک جوان کو قابو میں کرکے اس کا ہتھیار چھینا، اور اپنے دیگر زیر تفتیش ساتھیوں کو آزاد کروالیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ان لوگوں (دہشت گردوں) نے سی ٹی ڈی کمپلیکس میں موجود مال خانے میں جو ضبط شدہ ہتھیار ہیں، ان کو اپنے قابو میں لیا اور فائرنگ کرکے سی ٹی ڈی کے ایک سپاہی کو شہید کر دیا جبکہ ایک زخمی ہو گیا جو بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو گیا۔
میجر جنرل احمد شریف نے بتایا کہ سیکیورٹی فورسز کا ایک جے سی او ایس ایم خورشید جو تفتیش کے لیے سی ٹی ڈی میں موجود تھے، انہیں یرغمال بنا لیا گیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ فائرنگ کی آواز سنتے ہی سیکیورٹی فورسز وہاں پہنچیں اور انہوں نے کمپلیکس کا محاصرہ کر لیا، جو دہشت گردوں کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ ہوا، اس دوران دو دہشت گرد مارے گئے جبکہ تین دہشت گرد جو فرار ہونا چاہتے تھے، وہ گرفتار ہو گئے، اس دوران سیکیورٹی فورسز کے دو جوان بھی زخمی ہوئے۔
ترجمان افواج پاکستان نے مزید کہا کہ اس کے بعد وہاں پر جو فورسز تھیں، انہوں نے پورے علاقے کا محاصرہ کر لیا، دہشت گردوں نے وہاں سے فرار ہونے کی جو بھی کوشش کی، وہ ناکام بنا دی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 48 گھنٹے میں بھرپور کوشش کی گئی کہ دہشت گرد بلامشروط سرنڈر کردیں جبکہ جو دہشت گرد افغانستان جانے کے لیے محفوظ راستہ مانگ رہے تھے، دہشت گردوں کے اس مطالبے کو مکمل طور پر رد کیا گیا، اور یہ بتا دیا گیا کہ اس طرح کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔
میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے بتایا کہ چونکہ وہ وہاں سے بلامشروط سرنڈر ہونے اور کسی صورت میں ہتھیار ڈالنے کو تیار نہیں تھے، تو آج سیکیورٹی فورسز نے سی ٹی ڈی کمپلیکس پر بھرپور آپریشن شروع کیا، آپریشن کے دوران شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا، اور مرحلہ وار کمروں کی کلیئرنس کی گئی ، اس دوران ہمارے جوان انتہائی بہادری سے لڑے، اور شدید فائرنگ کے تبادلے میں 25 دہشت گرد مارے گئے، 3 گرفتار ہوئے، اس دوران 7 دہشتگردوں نے سرنڈر کر دیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس پوری کارروائی میں صوبیدار میجر خورشید اکرم جنہیں یرغمال بنایا ہوا تھے، وہ بھی بڑی بہادری سے لڑے اور شہادت کا مرتبہ حاصل کیا، ان کے ساتھ سپاہی سعید اور سپاہی بابر بھی پاکستان اور اپنے وطن پر قربان ہوئے۔
میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے بتایا کہ دوران آپریشن سیکیورٹی فورسز کے تین افسران سمیت 10 جوان زخمی بھی ہوئے، انہوں نے کہا کہ یہ جو آپریشن ہے، یہ افواج پاکستان کی ہمت، دلیری، عزم اور دہشت گردی کے خاتمے کے خلاف ہماری جنگ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
’افواج پاکستان دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ دینے کے لیے پرعزم ہے‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے ادارے عوام کی تائید اور پورے یقین کے ساتھ ریاست کی رٹ قائم کرنے اور دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ دینے کے لیے مکمل طور پر پرعزم ہے، اور ہمارے شہدا کی عظیم قربانی ہے، ہمارے ہمت اور حوصلے کو مزید بڑھاتی ہے، اور ہمارے اس عزم کا اعادہ کرتی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ میں ہم کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
ترجمان افواج پاکستان نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ اس سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ یہ آپریشن کیسے لڑا گیا، اور کس طرح آج ہماری عظیم افواج کے بہادر سپوتوں نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیا۔
ان سے سوال پوچھا گیا کہ اس حوالے سے ہر پاکستانی کو تشویش بھی ہے اور وہ آپ کی طرف سے جاننا بھی چاہتا ہے کہ کچھ خدشات ہیں کہ خدانخواستہ یہ دہشت گردی پاکستان میں پھر سر اٹھا رہی ہے، وہ امن جو بہت ہی قربانیوں کےبعد پاکستان کی مسلح افواج نے دلوایا، جس میں سپاہیوں کے ساتھ افسران نے بھی شہادت پائی، کیا پاکستان کی افواج کوئی ضرورت محسوس کررہی ہے کہ کوئی دوبارہ کوئی آپریشن کرنا پڑے گا ایسے گروپس کے خلاف جو دوبارہ منظم ہو رہے ہیں یا جو پاکستان کے خلاف افغانستان کی سرزمین کو استعمال کر رہے ہیں۔
اس سوال کے جواب میں میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے بتایا کہ آپ کے توسط سے یہ بات بتانا چاہوں گا کہ جیسے آپ نے کہا کہ یہ عظیم قربانیوں کا ایک بڑا پرانا سلسلہ ہے، جو افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردی کے خلاف دے رہی ہیں، ہمارا عزم اس پر مکمل قائم ہے، اور جو دہشت گردی کی تازہ ہوا نظر آتی ہے کہ یہ چل رہی ہے، جو بھی ہمارے خلاف آئے گا اس کو ہم سر سے کچلنے کی پوری ہمت اور ارادہ رکھتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مغربی سائیڈ سے دہشت گردی کی جو بھی ہوا چلی ہے، اس کو افواج پاکستان اور قانون فافذ کرنے والے ادارے کسی صورت بھی ابھرنے نہیں دے گی۔
ان سے پوچھا گیا کہ ایک تاثر تھا، متضاد خبریں بھی آرہی تھیں کہ کچھ لوگ باہر سے آئے ہیں، اور ان کی وجہ سے دہشت گردی ہوئی؟ اس سوال کے جواب میں میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے بتایا کہ اندر جو زیر تفتیش لوگ تھے، یہ انہی نے سی ٹی ڈی کے جو سپاہی اور جوان تھے، ان کو قابو کر کے یہ صورتحال پیدا کی، باہر سے کوئی حملہ نہیں ہوا۔
کیا افغان حکومت سے رابطے کیے جارہے ہیں کہ وہ اپنی زمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں، اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت اس بارے میں انتہائی سنجیدہ ہے اور افواج پاکستان بھی بہت سنجیدہ ہے، اس کے لیے جو اقدامات حکومت نے کرنے ہیں وہ حکومت کررہی ہے اور جو افواج پاکستان نے کرنے ہیں، وہ ہم کررہے ہیں، سرحد سے شہروں تک حفاظت کی جارہی ہے، اسی طرح انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کیے جارہے ہیں، ہر لیول پر مکمل طور پر تمام سرکاری ایجنسیاں اور ادارے متحرک ہیں۔
دو سیکیورٹی اہلکار شہید، تمام دہشت گرد ہلاک ہوگئے، خواجہ آصف
آج صبح وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ سیکیورٹی فورسز نے بنوں میں سی ٹی ڈی کے مرکز میں کارروائی کرکے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے کمپاؤنڈ واگزار کرا لیا جہاں تمام دہشت گرد مارے گئے جبکہ 2 سیکیورٹی اہلکار شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران بنوں میں سی ٹی ڈی میں دہشت گردوں کے خلاف سیکیورٹی فورسز کی کارروائی کے حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ سی ٹی ڈی کمپاؤنڈ کلیئر کردیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بنوں میں اُس وقت 33 دہشت گرد گرفتار تھے، ان میں سے ایک دہشت گرد بیت الخلا کی طرف جارہا تھا تو ایک اہلکار کے سر پر اینٹ مار کر اس سے اسلحہ چھین لیا، اس کے بعد انہوں نے عملے کو یرغمال بنایا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ 20 دسمبر کو ساڑھے بارہ بجے ایس ایس جی نے یہ آپریشن شروع کیا، اس آپریشن میں تمام دہشت گرد مارے گئے، اور آج ڈھائی بجے سی ٹی ڈی کا سارا کمپاؤنڈ کلیئر کر دیا گیا۔
خواجہ آصف نے کہا کہ کارروائی میں شامل ایک افسر سمیت ایس ایس جی کے 10 سے 15 جوان زخمی ہوئے ہیں، اس کے علاوہ 2 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے اور تمام یرغمالیوں کو چھڑوا لیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ دہشت گردی خصوصاً خیبرپختونخوا میں دوبارہ سر اٹھا رہی ہے، واقعات دوسرے صوبوں میں بھی ہوئے ہیں لیکن وہاں پر بڑے واضح ثبوت مل رہے ہیں کہ دہشت گرد سرحد پار یا پھر مقامی سطح پر سر اٹھا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ 33 دہشت گرد اسی سلسلے میں وہاں پکڑے گئے تھے، ان کا تعلق مختلف گروہوں سے تھا، اس سلسلے میں سی ٹی ڈی جو ایک صوبائی ذمہ داری تھی، اس میں صوبائی حکومت مکمل طور پر ناکام ہوئی ہے۔
وزیر دفاع نے مزید کہا کہ پوری صوبائی حکومت عمران خان کے پاس یرغمال بنی ہوئی ہے، خیبرپختونخوا میں بے گناہ افراد یرغمال بنے ہوئے ہیں اور عمران خان نے حکومت کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 9 سال سے ان کی وہاں حکومت ہے، وہاں جب بھی کوئی مشکل وقت آیا ہے، وہاں پر سیلاب آیا تب بھی وہ ناکام ہوئے اور اب بھی یہ ناکامی ہے، جو گزشتہ تین دن سے وہاں پر سلسلہ چل رہا تھا، بالآخر ہماری افواج نے وہاں پر یرغمال افراد کو رہا کروایا، دہشت گرد بھی مارے گئے۔
انہوں نے کہا کہ وہاں اس بحران کے خاتمے کے لیے افواج نے قربانیاں بھی دی ہیں، اس میں صوبائی حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کے فنڈز اور ہیلی کاپٹر عمران خان استعمال کرتا ہے، چار بھائی پتھروں پر کھڑے رہے اور سیلاب کی نذر ہوگئے لیکن وہاں پر ہیلی کاپٹر نہ پہنچا اور وہ شخص خواب دیکھ رہا ہے کہ اس ملک پر دوبارہ حکمرانی کرے گا تاکہ اگر تباہی میں کوئی کسر رہ گئی ہے تو اسے پوری کرسکے۔
انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے حکمران کہاں ہیں؟ وہاں پر بحران تھا اور وزیراعلیٰ عمران خان کا یرغمال بنا ہوا تھا۔
دوسری جانب پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے مختصر بیان میں کہا کہ آپریشن کے حوالے تفصیلات بہت جلد جاری کردی جائیں گی۔
خواجہ آصف کے بیان کے بعد ڈان ڈاٹ کام کو سینئر پولیس افسر نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تصدیق کیا کہ آپریشن مکمل کرلیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ اتوار کو بنوں میں محکمہ انسداد دہشت گردی کی عمارت میں زیر حراست دہشت گردوں نے عمارت کو قبضے میں لے لیا تھا اور اپنی باحفاظت افغانستان منتقلی کا مطالبہ کیا تھا۔
خیبرپختونخوا پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے زیر انتظام چلائے جانے والے حراستی مرکز میں عسکریت پسند لاک اَپ سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئے تھے اور سیکیورٹی اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا تھا۔
سیکیورٹی فورسز نے آج صبح دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کیا تھا اور ٹی وی پر نشر ہونے والی فوٹیج میں سی ٹی ڈی کمپاؤنڈ سے دھوئیں کے بادل اٹھتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ نے مقامی لوگوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے مرکز کے اطراف سے دھماکوں کی آوازیں سنی ہیں۔
ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کو بھی بنوں میں آپریشن جاری ہونے کی تصدیق ہوئی۔
گزشتہ روز بھی بنوں میں صورت حال کشیدہ رہی جب پولیس اور سیکیورٹی اداروں نے کینٹ ایریا کو سیل کر دیا اور مکینوں کو گھروں کے اندر رہنے کی ہدایت کی تھی، اس کے علاوہ علاقے میں انٹرنیٹ اور موبائل سروس بھی معطل کردی گئی تھی۔
یہ پیش رفت پاکستان میں دہشت گردوں کے حملوں میں تیزی کی لہر کے دوران دیکھنے میں آئی، اتوار کو بنوں ڈویژن کے ضلع لکی مروت میں رات گئے ایک پولیس اسٹیشن پر دہشت گردوں کے حملے میں 4 پولیس اہلکار شہید اور 4 زخمی ہوگئے تھے۔
گزشتہ روز بھی پشاور میں انٹیلی جنس بیورو کے سب انسپکٹر کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا جب کہ شمالی وزیرستان میں خودکش حملے میں ایک فوجی اہلکار اور دو شہری شہید ہوئے۔
دوسری جانب بلوچستان میں گزشتہ روز خضدار میں یکے بعد دیگرے 2 بم دھماکوں میں 20 افراد زخمی ہوئے تھے۔
ٹی ٹی پی نے ذمہ داری قبول کرلی
کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے کمپاؤنڈ پر حملے کی ذمہ داری قبول کرلی تھی، ایک بیان میں ترجمان ٹی ٹی پی نے کہا کہ اس کے ارکان نے سی ٹی ڈی کے عملے اور سیکیورٹی اہلکاروں کو یرغمال بنایا۔
عسکریت پسند گروپ کے ترجمان نے مزید کہا کہ ہمارے لوگوں نے اپنے ویڈیو بیان میں محفوظ راستے کا مطالبہ کیا لیکن غلطی سے افغانستان کا ذکر کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے رات بھر سرکاری حکام سے بات چیت اور مذاکرات کیے اور ان سے کہا کہ وہ قیدیوں کو جنوبی یا شمالی وزیرستان منتقل کریں لیکن افسوس کا اظہار کیا کہ تاحال اس سلسلے میں کوئی مثبت جواب نہیں دیا گیا۔
زیر قبضہ سی ٹی ڈی سینٹر کے اندر موجود عسکریت پسندوں نے کئی ویڈیوز بھی جاری کیں جن میں بنوں کے لوگوں، خاص طور پر علما سے کہا گیا کہ وہ عسکریت پسندوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان تعطل کو بات چیت کے ذریعے ختم کروانے میں کردار ادا کریں۔
ایک اور ویڈیو کلپ میں زیر حراست شخص نے خود کو ’بے گناہ‘ قرار دیا اور کہا کہ طالبان عسکریت پسندوں کی جانب سے یرغمال بنائے گئے افراد میں کئی دیگر بے گناہ بھی کمپاؤنڈ کے اندر موجود ہیں۔
ایک اور ویڈیو کلپ میں مبینہ طور پر ایک عسکریت پسند نے ایک سیکیورٹی اہلکار پر بندوق تان کر اسے پکڑ رکھا ہے۔
مبینہ عسکریت پسندوں نے افغانستان جانے کے لیے محفوظ راستہ دینے کا مطالبہ کیا اور مطالبہ پورا نہ ہونے کی صورت میں سنگین نتائج سے خبردار کیا، ایک اور مبینہ عسکریت پسند کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ ان کی قید میں 8 سے 10 سیکیورٹی اہلکار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فدائین کے نام سے مشہور ان کے وہ 35 ساتھی جنہیں حراست میں لیا گیا تھا، وہ آزاد ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور انہوں نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ فضائی راستے سے ان کی افغانستان روانگی یقینی بنائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے جیل توڑ دی ہے اور سیکیورٹی اہلکار ہماری قید میں ہیں اور اگر ہمیں محفوظ راستہ فراہم کیا گیا تو انہیں باحفاظت رہا کردیا جائے گا۔