ایف بی آر کی نئے ٹیکسز کے بغیر آئی ایم ایف کو اہداف حاصل کرنے کی یقین دہانی
پاکستان کی عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ اگلے 7 ماہ ( دسمبر سے جون) کے لیے محصولات کی وصولی کے تخمینے میں فرق کو کم کرنے کے لیے کوششیں جاری ہیں تاکہ نویں جائزہ قسط میں تاخیر کے باعث پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال کو ختم کیا جاسکے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ مالی سال 2022-2023 کے دوران 422 ارب روپے کا خسارہ ہوا جسے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے مسترد کردیا ہے۔
تاہم ایف بی آر نے آئی ایم ایف کے سامنے خسارے کا تخمینہ پیش کیا جس میں یقین دہانی کروائی کہ درآمدات میں کمی کے باوجود بجٹ کا ہدف حاصل کیا جاسکتا ہے۔
ایف بی آر کے تخمینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ خلا کو کم کرنے کے لیے نئے ٹیکس کے اقدامات کی ضرورت نہیں ہے۔
تاہم آئی ایم ایف نے محصولات کی وصولی کو برقرار رکھنے کے لیے اضافی محصولات کے اقدامات پر زور دیا تاکہ 30 جون 2023 کے اختتام تک 7 کھرب 47 ارب روپے کے متوقع ٹیکس ہدف کو حاصل کیا جاسکے، جو گزشتہ سال کی وصولی کے مقابلے 21.5 فیصد زیادہ ہے۔
ایف بی آر نے جولائی اور نومبر کے دوران 26 کھرب 88 ارب روپے وصول کیے جو اس مدت کے لیے مقرر کردہ ہدف سے محض 8 ارب روپے زیادہ ہے۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان طریقہ کار میں فرق صرف ایف ابی آر کے محصولات کی وصولی تک محدود نہیں بلکہ ان کے درمیان پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی (پی ڈی ایل) کی وصولی پر بھی اختلافات شامل ہیں۔
رواں مالی سال کے دوران پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی کے تحت آئی ایم ایف نے 30 ارب روپے کی کمی کا تخمینہ لگایا تھا، اس سے قبل وزارت خزانہ نے 50 ارب روپے کا تخمینہ لگایا جسے آئی ایف ایم نے مسترد کردیا تھا۔
رواں مالی سال 2022-2023 کے پہلے پانچ ماہ کے دوران پیٹرولیم مصنوعات کی کھپت میں 22 فیصد کمی ہوئی ہے جس کا مطلب پیٹرولیم کے شعبے کے مقابلے میں جنرل سیلز ٹیکس زیادہ وصول ہوئے ہیں۔
باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ ایف بی آر نے رواں مالی سال کے دوسرے نصف عرصے اور دسمبر میں محصولات کی وصولی کی تٖفصیلات جمع کروادی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ’ ہم نے آئی ایم ایف حکام کو مطلع کردیا ہے کہ ایف بی آر کا ہدف اضافی ریونیو اقدامات کے بغیر حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ’
ذرائع نے بتایا کہ مالی سال 2022-2023 کے پہلے پانچ ماہ کے دوران براہ راست ٹیکس کی وصولی میں 53 فیصد اضافہ ہوا، یہ رجحان درآمدی مرحلے پر محصولات کی وصولی میں کمی کے اثرات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہوگا۔
اس کے برعکس آئی ایم ایف نے سال 2022-2023 کی دوسری ششماہی میں محصولات میں کمی کے بارے میں تفصیلات سے پاکستان کو پہلے ہی آگاہ کردیا ہے، ذرائع کے مطابق دوسری ششماہی میں محصولات کی وصولی کے حوالے سے پاکستان کی جانب سے لگائے گئے تخمینوں پر آئی ایم ایف کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔
اس کے علاوہ گزشتہ ہفتے ایف بی آر کے چیئرمین عاصم احمد نے کراچی کا دورہ کیا تھا، انہوں نے ٹیکس شعبے کے اعلیٰ حکام کو ہدایت کی کہ زیادہ سے زیادہ محصولات کی وصولی کے لیے کوششیں تیز کی جائیں، عاصم احمد نے اس حوالے سے مخصوص اہداف بھی پیش کیے۔
دوسری جانب 13 دسمبر کو وزیرخزانہ اسحٰق ڈار نے محصولات کی وصولی کے حوالے سے ایف بی آر کا دورہ کیا، اسحٰق ڈار کی 9 ویں جائزے کے جلد اختتام پر بھی کڑی نظر ہے جسے اکتوبر کے آخر تک مکمل ہونا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پیڑولیم ڈیولپمنٹ لیوی کی وصولی کے طریقہ کار اور خامیوں پر جب سوالات اٹھائے گئے تو وزارت خزانہ نے اس حوالے سے تمام تفصیلات آئی ایم ایف کے ساتھ شیئر کی تھی۔
ذرائع کے مطابق یہ مسئلہ تب ہی حل ہوسکتا ہے جب دونوں فریقین محصولات کی وصولی کے طریقہ کار میں موجود فرق کو کم کریں گے۔’
آئی ایم ایف کی نویں جائزہ قسط میں تاخیر کا تعلق مالی سال 2023 کے ششماہی میں محصولات کی وصولی کے اہداف اور پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی کی وصولی پر منحصر ہے۔
پاکستان سال 2019 میں 6 ارب ڈالر کے آئی ایم ایف پروگرام میں شامل ہوا تھا، جسے اس سال کے آغاز میں بڑھا کر 7 ارب ڈالر کردیا گیا تھا، آئی ایم ایف اور حکومتِ پاکستان کے درمیان زیرِ التوا مذاکرات کی وجہ سے ایک ارب 18 کروڑ ڈالر کی قسط کے اجرا کے لیے نواں جائزہ تاخیر کا شکار ہے ۔