’قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے زرعی نگرانی کے نظام کی ضرورت ہے‘
فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) نے زراعت کی ترقی اور قدرتی آفات کے دوران ہنگامی بنیادوں پر ردعمل کے لیے مانیٹرنگ سسٹم تیار کرنے کی سفارش کی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق غذائی تحفظ کے لیے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن نے کہا ہے کہ کھیتوں اور ریموٹ سینسنگ کو باہم مربوط کرنے والے نظام کو صوبائی سطح پر شروع کیا جانا چاہیے اور پھر اسے ملک بھر میں پھیلایا جانا چاہیے۔
فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن نے یہ سفارش ’پاکستان میں سیلاب کے اثرات کا تیز رفتار جغرافیائی جائزہ، 2022‘۔کے عنوان سے جاری اپنی رپورٹ میں کی ہے۔
فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ جغرافیائی اور معلوماتی ٹکنالوجیز میں حالیہ پیشرفت، زمین کے تازہ ترین نقشے، فصلوں سے متعلق خصوصی معلومات کی دستیابی سے کسی بھی صورتحال سے نمٹنے میں بہتر رد عمل متوقع ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ نظام فصلوں کی نگرانی اور اس پر آنے والی لاگت میں کمی کا بھی باعث بنے گا۔
فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کی جانب سے ”پاکستان میں سیلاب کے اثرات کا تیز رفتار جغرافیائی جائزہ، 2022“ زرعی زمین، فصلوں کی اقسام اور لوگوں پر حالیہ بد ترین سیلاب کے اثرات کو نمایاں کرنے کے لیے کیا گیا۔
رپورٹ کے نتائج کے مطابق سیلاب کے دوران تقریباً 50 ہزار مربع کلومیٹر یا ملک کی زمین کے کل رقبہ کا 6.3 فیصد حصہ پانی میں ڈوب گیا جس میں تقریباً 38 ہزار 289 مربع کلومیٹر زرعی رقبہ یا 16 فیصد زیر آب آ گیا۔
سیلاب سے 1,002 مربع کلومیٹر پر گنا، 7ہزار 611 مربع کلومیٹر پر گندم، ایک ہزار 359 مربع کلومیٹر پر کپاس اور 14ہزار 925 مربع کلومیٹر پر چاول کی فصل متاثر ہوئی ہیں۔
قدرتی آفات کے دوران تقریباً 580 مربع کلومیٹر جنگلات پر مشتمل رقبہ زیر آب آگیا جس میں درخت، قدرتی پودے اور درخت شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تقریباً 2 کروڑ افراد سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ سندھ میں 90 لاکھ، کے پی میں 8 لاکھ 50 ہزار، بلوچستان میں 7 لاکھ 50 اور پنجاب میں 90 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔
چاروں صوبوں کے لیے کیے گئے جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیلاب سے نقصان کی حد کے لحاظ سے سندھ سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ ہے۔
سندھ میں قمبر شہدادکوٹ، بدین، جیکب آباد، دادو اور شکارپور اضلاع سب سے زیادہ متاثر ہوئے جب کہ خیبر پختونخوا کے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے اضلاع میں ڈیرہ اسماعیل خان، لکی مروت، ٹانک، کوہاٹ اور کرک شامل تھے۔
اس کے علاوہ رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے اضلاع جعفرآباد، نصیر آباد، جھل مگسی، سبی اور بولان تھے جب کہ پنجاب میں راجن پور، شیخوپورہ، ڈیرہ غازی خان، سیالکوٹ اور سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع تھے۔