عمران خان کو کہا تھا جنرل (ر) باجوہ محسن ہیں، ان کے خلاف نہ بولیں، چوہدری پرویز الہیٰ
وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ نے کہا ہے کہ عمران خان کو یہ بات کہی تھی کہ جنرل (ر) باجوہ ہمارے محسن ہیں، آپ کے محسن ہیں، پی ٹی آئی کے محسن ہیں، خدا کا خوف کرو، ان کے خلاف نہ بولیں۔
اے آر وائی کے پروگرام ’دی رپورٹرز‘ میں بات کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ نے کہا کہ پی ٹی آئی کو چاہیے کہ یہ یاد رکھے، احسان فراموش نہ بنیں، جنرل (ر) باجوہ کے احسان ہیں، سابق آرمی چیف ان کو اٹھا کر کہاں سے کہاں اوپر لے گئے، اور ہر چیز کی، اگر باہر سے فنڈ لانے تھے تو وہ (سابق آرمی چیف) خود جاتے رہے، سعودی بادشاہ اور ولی عہد سے ملاقات کی، وہ قطر سے پیسے لے کر آئے۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ جب میں وزیراعلیٰ بنا اور حلف لینے کے بعد جب بنی گالا میں عمران خان سے ملاقات ہوئی، تو انہوں (پی ٹی آئی چیئرمین) نے کہا کہ مونس دیکھو میں تو دو، تین دن بعد اسمبلیاں توڑ دوں گا، ہم نے کہا تھا کہ جی آپ توڑ دیں، آپ کی امانت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہمیں چند دن قبل زمان پارک میں بلایا، ہم نے آپ کو پہلے ہی واپس دے دی ہے، اب آپ لاگو کردیں۔
اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد ملکی سیاست کو کس طرف جاتا دیکھ رہے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں چوہدری پرویز الہیٰ کا کہنا تھا کہ ابھی کل ابتدا ہوئی، یہ تمام سیاسی جماعتوں اور پی ڈی ایم کے لیے ایک بہت بڑا جھٹکا ہے، اور خاص طور پر ملک کے لیے بھی ہے، ہماری معیشت پہلے ہی ڈوبی ہوئی ہے، اس سے اسٹاک ایکسچینج بھی نیچے جائے گا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ عام لوگ جو پی ٹی آئی کے حامی ہیں، وہ بھی چاہتے تھے کہ اسمبلیاں چلیں، روزگار کے مواقع پیدا ہو رہے تھے، ہم نے چار ماہ میں دن رات کام کیا ہے، تب جا کر کچھ چیز ابھر کر سامنے آئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ مینڈیٹ عمران خان نے لیا تھا، ہم تو اتحادی تھے، بقول فواد چوہدری کے ان کو اوقات میں رکھا ہے، اسی طرح شیخ رشید نے باتیں کی، اس طرح کی حرکتیں دکھ دینے والی باتیں ہیں، ہم عمران خان کی خاطر کام کررہے ہیں تو فائدہ شیخ رشید کو بھی ہے، اس طرح کی باتیں نہیں کرنا چاہیے، میں ان کے خلاف اپنے 10 بندے لگا دوں، یہ کیا سمجھتے ہیں، مذاق ہے کوئی۔
وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ نے کہا کہ 3 مہینے پہلے عمران خان کو یہ بات کہی تھی کہ جنرل (ر) باجوہ ہمارے محسن ہیں، آپ کے محسن ہیں، پی ٹی آئی کے محسن ہیں، خدا کا خوف کرو، ان کے خلاف نہ بولیں۔
’عمران خان نے ساتھ بٹھا کر جنرل (ر) باجوہ کو برا بھلا کہا، میرے ساتھ زیادتی کی‘
ان کا کہنا تھا کہ جب ہم یہاں ڈھائی بجے ملے تھے، اس وقت بھی میں نے کہا تھا کہ جنرل (ر) باوجوہ کے خلاف بات نہیں کرنا، انہوں نے کہا کہ بہت سفارشیں آئیں، اُس پر میں نے کہا تھا کہ پھر مان لیں نا، عمران خان نے جو زیادتی کی، مجھے ساتھ بٹھا کر جنرل (ر) باجوہ کو برا بھلا کہا، یہ بڑی زیادتی ہے۔
پرویز الہٰی نے کہا کہ پی ٹی آئی کو چاہیے کہ یہ یاد رکھے، احسان فراموش نہ بنیں، جنرل (ر) باجوہ کے احسان ہیں، سابق آرمی چیف ان کو اٹھا کر کہاں سے کہاں اوپر لے گئے، اور ہر چیز کی، اگر باہر سے فنڈ لانے تھے تو وہ (سابق آرمی چیف) خود جاتے رہے، سعودی بادشاہ اور ولی عہد سے ملاقات کی، وہ قطر سے پیسے لے کر آئے۔
ان کا کہنا تھا کہ بیلجیم میں بیٹھ کر انہوں نے آئی ایم ایف کا کام کیا، یہ اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں؟ یہ سارے لوگ کیا اوپر سے آ گئے ہیں، اگر جنرل (ر) باجوہ کے خلاف کسی نے بات کی، سب سے پہلے میں بولوں گا، اس کے بعد ہماری ساری پارٹی بولے گی، انہوں نے مذاق بنا لیا ہے، بندہ اتنا احسان فراموش ہوسکتا ہے، یہ کیا ہے کہ منہ اٹھا کر جو مرضی آئے شروع ہو جاتا ہے۔
پرویز الہیٰ نے کہا کہ چیمہ اور اس کی بیگم شروع ہوجاتے ہیں، یار آپ اپنی اوقات میں رہیں، کوئی بندہ نہیں بولےگا، میں تو کابینہ میں برداشت نہیں کرتا، پہلے دن ہی کہہ دیا تھا۔
انہوں نے صوبائی وزیر سردار حسنین بہادر کے حوالے سے بتایا کہ کابینہ میں بیٹھ کر بک بک شروع کر دی، میں نے کہا کہ ’گیٹ آؤٹ‘، اسے باہر نکال دیا، اس نے استعفیٰ دیا جو میں نے آج ہی منظور کر لیا، اس طرح نہیں ہوتا۔
ان سے پوچھا گیا کہ جب عمران خان جنرل (ر) باجوہ کے حوالے سے بات کررہے تھے تو آپ کو برا لگا، اس پر چوہدری پرویز الہیٰ نے کہا کہ مجھے بہت برا لگا، اس وقت بہت سارے لوگ تھے، مجھے اکیلے ٹائم نہیں ملا، ہم برداشت نہیں کریں گے، وہ ہمارے محسن ہیں، ہم نے شریفوں کے وقت بھی نہیں سنی تھی۔
’جنرل (ر) فیض نے ہمارے ساتھ زیادتیاں کیں‘
چوہدری پرویز الہیٰ نے دعویٰ کیا کہ عمران خان مونس الہیٰ کو وزیر نہیں بناتے تھے، جنرل (ر) فیض نے ہمارے ساتھ جو زیادتیاں کیں، جنرل (ر) فیض ہمارے سخت خلاف ہو گئے، ایک دفعہ یہ ہوا، جب جنرل (ر) باجوہ کی توسیع کا مسئلہ تھا، ہم سپورٹ کررہے تھے، اس وقت بھی بڑی عجیب صورتحال ہوئی، جنرل (ر) فیض حمید نے چیئرمین نیب کو بلا کر کہا کہ مجھے (پرویز الہیٰ) اور مونس کو بھی اندر کر دیں۔
انہوں نے کہا کہ پھر سابق آرمی چیف جنرل (ر) باجوہ کو فون کیا، انہوں نے جنرل (ر) فیض کی اچھی طرح ٹھکائی کی، وہ بعض نہیں آ رہا تھا، اس نے کہا کہ پیچھے سے عمران خان کا حکم ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ کیا طریقہ ہے، اور ہم نے کب عمران خان کی سپورٹ نہیں کی، سینیٹ کی سیٹیں کس طرح لے کر دی ہیں، اس کے بعد یہ سیدھے ہوئے اور مونس الہیٰ کو (وزیر) بنایا۔
چوہدری پرویز الہٰی نے کہا کہ اللہ نے راستہ اس طرح نکالا، پی ٹی آئی اور عمران خان کے ارد گرد کے لوگ جو میرے مخالف بھی تھے، ان لوگوں نے کہا اگر اس وقت چوہدری صاحب کو وزیراعلیٰ نہیں بناتے تو آپ کی پارٹی فارغ ہو جائے گی، یہیں فارغ ہو جائے گی، آپ کی اسمبلیاں توڑنے کی بات پہنچے گی ہی نہیں، آپ فارغ ہو جائیں گے اور پاکستان مسلم لیگ (ن) والے آ جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے ہی شہباز شریف کے بیٹے پاکستان آ رہے ہیں، پھر نواز شریف بھی نہا دھو کر آ جائے گا، پلیٹ لٹ بھی پورے ہو گئے نا۔ْ
وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ یہ آج کی صورتحال ہے، کل کو انہیں پھر ضرورت نہیں پڑنی، نواز شریف بھی سولو (اکیلا) کرتا تا فارغ ہو گیا، اُس وقت اگر جنرل (ر) فیض ڈنڈی نہ مارتے تو عمران خان نے سب کے ساتھ بڑے پیار سے ڈیل کرنا تھا، اپنے لوگوں کے ساتھ بھی پیار سے ڈیل کرنا تھا اور جنرل (ر) فیض حمید کے ذریعے کسی کو اندر نہیں کرانا تھا۔
’عثمان بزدار لوگوں کو اندر کرواتا تھا‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ آدھا کام تو عثمان بزدار نے خراب کیا ہے، یہ لوگوں کو اندر کرواتا تھا، اس احسان فراموش کو یہ بھی شرم نہیں آئی کہ اس کے والد کو میں نے اٹھا اٹھا کر رکھا، یہ تو لوکل باڈیز کا الیکشن ہار گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ سب بیٹھے ہوئے تھے، ہم نے پریس کانفرنس سے پہلے بتا دیا تھا کہ ہمارے ساتھ طے کریں کہ ہمیں آپ نے کیا دینا ہے، اس کے لیے آپ کمیٹی بنا دیں، اس میں اسد عمر، پرویز خٹک اور اسپیکر سبطین خان کو شامل کریں، یہ ہم سے بات کریں گے، باقی جو لوگ پھر رہے ہیں، یہ ہم سے بات نہ کریں، پھر یہ جواب لیں گے، ہم کامل علی آغا کو بٹھا دیں گے یہ ان کے خلاف سارا دن بولتا رہے گا۔
چوہدری پرویز الہیٰ نے کہا کہ آج اقتدار نہیں ہے، پھر بھی عمران خان کی عز ت ہے، اور لوگ ان سے پیار کرتے ہیں، ان کو بھی احتیاط کرنی چاہیے، عزت اور احترام میں کمی نہیں آنی چاہیے، میں دیکھتا ہوں کہ جو ان کے ساتھ دل سے مخلص ہیں، انہیں وہ مقام نہیں دیا جارہا۔
ان سے پوچھا گیا کہ آپ اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط کر کے آئے ہیں، اس کے جواب میں وزیر اعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ میں ایک مہینہ پہلے سمری پر دستخط کر کے دے آیا تھا۔
’اسمبلیوں کی تحلیل ابھی بڑی دور کی بات ہے‘
23 دسمبر کو اسمبلیاں تحلیل کرنے سے متعلق سوال کے جواب میں چوہدری پرویز الہیٰ نے کہا کہ بات یہ ہے کہ یہ ابھی بڑی دور کی بات ہے، عدالتیں بھی ہیں، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ایک بار یہ بات کہی تھی، آپ یہ چیزیں ادھر لے آتے ہیں، اسمبلی کیوں لے کر نہیں جاتے؟ دوبارہ مینڈیٹ کیا لینا ہے، پہلے نہیں لیا ہوا۔
ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ عمران خان کو تجویز دے رہے ہیں کہ واپس اسمبلی میں جائیں، اس پر انہوں نے کہا کہ میں انہیں کوئی تجویز نہیں دے رہا، مخالف پنجاب نہیں بلکہ سندھ کی خاطر اپنی مدت پوری کرنی ہے، اور قومی اسمبلی سے نہیں جانا چاہتے تاکہ اگلے انتخابات سے قبل کچھ کر کے جائیں، پھر شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے سمجھتے ہیں کہ یہ ان کا آخری چانس ہے۔
چوہدری پرویز الہٰی نے دعویٰ کیا کہ 99 فیصد لوگ چاہتے تھے کہ اسمبلی نہ توڑی جائے۔
’جنرل (ر) باجوہ کہتے ہیں عمران خان کو میرے خلاف باتیں کرنے سے کیوں نہیں روکا؟‘
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جنرل (ر) باجوہ کہتے ہیں کہ آپ عمران خان کے ساتھ بیٹھ کر میرے خلاف باتیں کرتے ہیں، آپ نے کیوں نہیں روکا؟
ان سے پوچھا گیا کہ کل رات کو پریس کانفرنس کے بعد سابق آرمی چیف سے آپ کا رابطہ ہوا، اس کے جواب میں وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ میرا رابطہ نہیں ہوا، بس ہوا ہے، میسیج آیا ہے، بات تو ان کی صحیح ہے، عمران خان نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ نہیں کرتا، لیکن انہوں نے کیا۔
وزیر اعلیٰ پنجاب نے دعویٰ کیا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہم سیاستدانوں سے وہ (اسٹیبلشمنٹ) زیادہ سمجھ دار ہیں، ان کے اندر جگرا بھی زیادہ ہے، شاید ان کی ٹریننگ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مونس الہیٰ نے عمران خان کو سب سے پہلے آ کر بتایا، کل اجلاس شروع ہونے سے پہلے ہم نے ان (عمران خان) کو وہ چیزیں بتائیں کہ جس کا نقصان ہو سکتا ہے، ہم نے ایک چیز بھی نہیں چھپائی، اور انہیں (اسٹیبلشمنٹ) کو کہا تھا کہ ہم نے عمران خان کو سب چیزیں بتا دیں، انہوں نے پھر بھی (اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان) کر لیا۔
’ان کے پاس ایک (راستہ) ہے، ایک سال کیلئے معاشی ایمرجنسی لگا دیں‘
ان سے سوال پوچھا گیا کہ وہاں (اسٹیبلشمنٹ) سے کہا گیا کہ اسمبلیاں ابھی نہ توڑیں اور سسٹم کو چلنے دیں، اس کے جواب میں چوہدری پرویز الہیٰ نے کہا کہ ظاہر ہے وہ سمجھتے ہیں کہ معیشت کا بیڑہ غرق ہے، اور مزید ہو جائے گا، وہ نہیں چاہ رہے کہ جو ہو رہا ہے اس طرح نہ ہو، وہ چاہ رہے ہیں کہ نظام چلے، یہ (پنجاب) اور وفاقی حکومت اپنی مدت پوری کرے، اگر آپ بار بار کہیں گے تو پھر ان کے پاس ایک اور (راستہ) بھی ہے، وہ ایک سال کے لیے معاشی ایمرجنسی لگا دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں نہیں پتا کہ جنرل (ر) فیض کیوں زیادتی کرائی؟ میں نہیں سمجھتا کہ فیض صاحب نے کروائی ہے لیکن کچھ لوگ شاہ سے زیادہ شاہ سے زیادہ وفادار ہوتے ہیں، انہیں کنٹرول کرنا ضروری ہوتا ہے۔
عمران خان پر وزیر آباد حملے سے متعلق سوال کے جواب میں وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا کہ ہم نے جو مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی بنائی تھی، جو عمران خان نے کہا تھا کہ اس کو سربراہ بنا دیں، جو اس کے ممبر ہیں، عمران خان کی منظوری کے بغیر نہ تفتیش ہو رہی ہے اور نہ ہی پیش رفت ہورہی ہے، میری کوشش ہے کہ وہ لوگ پکڑے جائیں اور کیفر کردار تک پہنچیں۔
یاد ہے کہ گزشتہ روز عمران خان نے سابق آرمی چیف پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ کس نے چلتی ہوئی حکومت کو سازش کرکے بیرونی سازش کا حصہ بن کے گرایا، اس کا ذمہ دار کون ہے، اس کا ایک آدمی ذمہ دار ہے، اس کا نام ہے سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ۔
ان کا کہنا تھا کہ میں اس کے خلاف بات اس لیے نہیں کر رہا تھا کیونکہ یہ آرمی چیف تھے، آرمی چیف کے خلاف اس لیے بات نہیں کرسکتے کیونکہ فوج کا برا نام نہ ہوجائے، ہم چاہتے ہیں کہ فوج مضبوط ہو تاکہ ہم آزاد ملک رہ سکیں، اس لیے ہم چپ کرکے بیٹھے رہے اور یہ سارے تماشے دیکھتے رہے کہ کیسے سازشیں ہوئیں، کیسے لوگوں کو بتایا گیا۔
عمران خان نے کہا تھا کہ یہ جو ساری سازش ہوئی تھی، کسی اور کو نہ کہیں، ایک آدمی فیصلہ کرتا ہے، وہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر) باجوہ تھے، انہوں نے ہمیں ہٹانے کا فیصلہ کیا، اس کے پیچھے کیا وجہ تھی کہ انہوں نے حکومت گرائی۔
ان کا کہنا تھا کہ جس طرح مصطفیٰ کھوکھر نے بتایا کہ بلوچستان عوامی پارٹی، ایم کیو ایم اور شاہ زین بگٹی کا سب کو پتا تھا کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ سے جدھر جانے کا حکم ملے گا، انہیں وہاں جانا ہے، اس کو ادھر بھیج دیا اور حکومت گر گئی۔
عمران خان نے کہا تھا کہ افسوس کی بات ہے، جنرل (ر) باجوہ آپ نے غلطی کر دی ہے، آپ عقل کل تو نہیں ہیں، آپ دیکھ رہے ہیں کہ لوگ کدھر کھڑے ہیں، بجائے اس کے کہ چیزیں ٹھیک کریں، ہمارے اوپر ظلم شروع ہو گیا۔