لگژری گاڑی چوری کیس کی تحقیقات سفارتی استثنیٰ کے سبب غیرمؤثر
لندن سے چوری ہوکر پاکستان سے برآمد ہونے والی لگژری گاڑی ’بینٹلے ملسن‘ کے فراڈ کی تحقیقات پیچیدگیوں کا شکار ہو گئی ہے اور سفارتی استثنیٰ نے تفتیش کاروں کے ساتھ ساتھ استغاثہ کے کام کو بھی پیچیدہ بنا دیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق رواں برس ستمبر میں چوری، ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی اور لگژری کار کی غیر قانونی رجسٹریشن کے کیس میں کسٹم حکام نے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے ایک گھر پر چھاپہ مار کر لندن سے مبینہ طور پر چوری کی جانے والی اور سندھ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ میں رجسٹرڈ شدہ بینٹلے ملسن کار برآمد کی تھی۔
لگژری گاڑی کے مقامی خریدار جمیل شفیع اور نوید بلوانی کو بھی حراست میں لے لیا گیا تھا جنہوں نے گاڑی کی کلیئرنس میں مبینہ طور پر غیر قانونی سہولت فراہم کی تھی۔
یہ مقدمہ کسٹم کی خصوصی عدالت میں زیر التوا ہے جس نے حتمی چارج شیٹ جمع کرانے کے لیے 11 جنوری 2023 کی تاریخ مقرر کی ہے۔
دستیاب دستاویزات کے مطابق لگژری گاڑی 2019 میں اسلام آباد میں تعینات ایک یورپی سفارت کار نے درآمد کی تھی، گاڑی کی نمبر پلیٹ بی آر ایس-279 تھی۔
محکمہ ایکسائز سندھ کے آن لائن گاڑیوں کی تصدیق کے پورٹل پر رجسٹریشن نمبر کی فوری تلاش سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ 21 مئی 2020 کو ’ایچ ای الیگزینڈرا بوریزوو‘ کے نام سے رجسٹرڈ کی گئی تھی۔
سرکاری دستاویزات میں مزید بتایا گیا کہ کسٹم حکام نے ماضی میں کراچی میں اس لگژری گاڑی کو ضبط کرنے کی کوشش کی تھی تاہم بلغاریہ کے سفارت خانے نے مداخلت کی اور وزارت خارجہ کو بتایا کہ گاڑی غیر ملکی مشن کے ’سروس اسٹاف‘ کے زیرِ استعمال ہے اور اسے کسی کو فروخت نہیں کیا گیا، لہٰذا محکمہ کسٹم کے پاس گاڑی کو ضبط کرنے کا دائرہ اختیار نہیں ہے’۔
اس کہانی کا آغاز 2019 میں پاکستان میں بلغاریہ کے سفیر کی جانب سے گاڑی کی درآمد سے ہوا تھا، نومبر 2019 کو حکومتِ پاکستان نے سفارتی افسران اور مشنز کے ذریعے اپنے ذاتی استعمال کے لیے بیرون ملک سے سامان درآمد کرنے کے لیے بلغاریہ کے سفارت خانے کے الیگزینڈر بوریزوو کے حق میں استثنیٰ کا سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا۔
بلغاریہ کے سفارت خانے کی جانب سے 26 دسمبر 2019 کو محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن سندھ کو لکھے گئے ایک باضابطہ خط میں کہا گیا تھا کہ کنسائنمنٹ (بینٹلے ملسن) اس وقت کے سفیر الیگزینڈر کی ملکیت ہے، سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر حکومت سندھ گاڑی کی کور رجسٹریشن نمبر پلیٹ جاری کرے۔
8 جنوری 2020 کو وزارت خارجہ نے بینٹلے ملسن کے لیے ایک نان ٹرانسفر ایبل (غیر منتقلی) رجسٹریشن سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا جس کا رجسٹریشن نمبر CD-09-13 تھا۔
واقعہ نے اس وقت ایک نیا رخ اختیار کیا جب کسٹم حکام نے عدالت میں جمع کرائی تھی اور عبوری چارج شیٹ میں بظاہر بلغاریہ کے سفارت خانے کو کلین چٹ دے دی تھی اور مختلف سفارت خانوں کے لیے سفارتی چھوٹ کے تحت گاڑیوں کی کلیئرنس میں ملوث جمیل شفیع، نوید بلوانی اور محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے ’نامعلوم‘ اہلکاروں سمیت 6 پاکستانیوں کے خلاف چارج شیٹ جمع کرائی تھی۔
چارج شیٹ کے مطابق بلغاریہ کے سفارت خانے کی جانب سے شپنگ ایجنسیوں کی خدمات حاصل کرنے یا ڈیلیوری آرڈر کی ادائیگی کے لیے کوئی بھی ادائیگی نہیں کی گئی۔
اس میں کہا گیا کہ یہ تمام ادائیگیاں ذاتی طور پر نقد میں کی گئیں، سفارت خانے سے ادائیگی کے حوالے سے اب تک کوئی ثبوت نہیں مل سکا جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ گاڑی بلغاریہ کے سفارت خانے کی ہے۔
کسٹمز ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ ’چونکہ اس معاملے میں غیر ملکی سفارت خانہ شامل ہے، اس لیے وزارت خارجہ اس معاملے کو دیکھے گی‘۔
سینیئر عہدیدار نے کہا کہ ’اگر کوئی غیر ملکی سفارت کار اس فراڈ میں ملوث پایا بھی جاتا ہے تو سفارتی اور قونصلر استحقاق ایکٹ 1972 کے تحت وزارت خارجہ کی جانب سے دیے گئے سفارتی استثنیٰ کی موجودگی میں ان پر فرد جرم عائد کرنے اور مقدمہ چلائے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے‘۔
تاہم کسٹم ڈپارٹمنٹ کے اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر عاشق اعوان نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ کیس میں کسی بھی غیر ملکی پر الزامات عائد کرنے کا فیصلہ حتمی چارج شیٹ میں کیا جائے گا۔
حتمی چارج شیٹ تیار ہونا ابھی باقی ہے، تاہم عبوری چارج شیٹ میں کہا گیا ہے کہ ملزمان نوید اور فہد احمد خان (فوکس شپنگ ایجنسیز) کے ملازم، جو اس کیس میں استغاثہ کے گواہ ہیں) کے درمیان واٹس ایپ رابطے نے ظاہر کیا کہ یہ صرف ایک گاڑی کا معاملہ نہیں جسے سفارتی حقوق کا غلط استعمال کرتے ہوئے اسمگل کیا گیا تھا بلکہ اسمگل شدہ گاڑیوں کی بہتات ہے۔
اس میں کہا گیا کہ تفتیشی ایجنسی ایسے مزید واقعات کی تصدیق کے لیے مختلف حلقوں سے رجوع کر رہی ہے، مذکورہ ڈیٹا کی جانچ اور تصدیق بھی جاری ہے۔
تاہم کسٹم ذرائع کا خیال ہے کہ مختلف سفارت خانوں کے نام پر مبینہ طور پر اسمگل کی جانے والی دیگر گاڑیوں کے معاملے میں مزید پیش رفت سے ایک نیا پنڈورا باکس کھل سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان میں کوئی بھی غیر ملکی سفارت کار اس اسکینڈل میں ملوث پایا جاتا ہے تو ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنا بہت مشکل ہےکیونکہ سفارتی استثنیٰ انہیں کسی بھی قسم کی مجرمانہ کارروائی سے بچا سکتا ہے۔