• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

نااہلی کےخلاف عمران خان کی درخواست پر چند ہفتوں میں فیصلہ کردیں گے،اسلام آباد ہائیکورٹ

شائع December 13, 2022
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس کسی ممبر کو نااہل کرنے کا اختیار نہیں—فائل/فوٹو: ڈان
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس کسی ممبر کو نااہل کرنے کا اختیار نہیں—فائل/فوٹو: ڈان

اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں الیکشن کمیشن کی جانب سے نااہل قرار دیے جانے کے فیصلے کے خلاف سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی درخواست پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ دلائل سن کر 2 سے 3 ہفتوں میں فیصلہ کردیں گے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے توشہ خانہ کیس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے اور مزید کارروائی کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما محسن شاہ نواز رانجھا کے وکیل نے دلائل کے لیے ایک ہفتے کی مہلت مانگ لی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر پہلے آپ دلائل شروع کر لیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ عمران خان کو پارٹی کی صدارت سے ہٹانے کی کارروائی شروع کی ہے، سیشن کورٹ میں عمران خان کے خلاف اندراج مقدمہ کی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ ہوا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 2 سے 3 ہفتوں میں سن کر فیصلہ کردیں گے۔

دوران سماعت فیصل واڈا کیس کے سپریم کورٹ کے فیصلے کا ذکر کیا گیا۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے19-2018 کے گوشواروں پر فیصلہ کرتے ہوئے عمران خان کو 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہل قرار دیتے ہوئے اپنی رائے کے ساتھ معاملہ الیکشن کمیشن کو بھیجا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جب معاملہ الیکشن کمیشن کو چلا گیا تو الیکشن کمیشن نے دونوں فریقین کو سنا ہوگا، کیا الیکشن کمیشن نے مزید شواہد مانگے یا صرف اسپیکر کے ریفرنس پر ہی انحصار کیا؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے صرف اسپیکر کے بھیجے ہوئے ریفرنس اور دستاویزات پر ہی انحصار کیا۔

عمران خان کے وکیل نے مزید مؤقف اپنایا کہ اسپیکر پر بار تھا کہ وہ یہ ثابت کرتے کہ عمران خان 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہل ہوتے ہیں، اسپیکر کو چاہیے تھا کہ ریفرنس کے ساتھ شواہد بھی الیکشن کمیشن کو بھیجتے، اسپیکر نے ایسا نہیں کیا، صرف درخواست پر ہی انحصار کیا، کوئی شواہد نہیں بھیجے، الیکشن کمیشن کو صرف ریفرنس ہر ہاں یا نا میں جواب دینا تھا کہ عمران خان پر 62 (ون) (ایف) لگتا ہے یا نہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے متعدد فیصلوں کے مطابق الیکشن کمیشن کورٹ آف لا نہیں ہے، الیکشن کمیشن نے اس کیس میں فیصل واڈا کیس کا سہارا لیا اور ڈیکلیریشن دی کیونکہ الیکشن کمیشن فیصل واڈا کیس میں بھی ڈیکلیریشن دے چکا ہے۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ 62 (ون) (ایف) کے تحت ڈیکلیریشن نہ ہونے کے سبب اسپیکر قومی اسمبلی کا فیصلہ غیر قانونی، غیر آئینی تھا، الیکشن کمیشن کورٹ آف لا نہیں، 62 (ون) (ایف) کی ڈیکلیریشن نہیں دے سکتا، الیکشن کمیشن کے پاس کسی ممبر کو نااہل کرنے کا اختیار نہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں کہ الیکشن کمیشن کورٹ آف لاء نہیں ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 63 (ایف) کے تحت نااہلی سے تو صادق اور امین والی بات نکل گئی؟

جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے فیصل واڈا کیس کو مدنظر رکھتے ہوئے میرے مؤکل کے خلاف فیصلہ دیا، آرٹیکل 63 (2) کے تحت ریفرنس میں آرٹیکل 63 )ون( میں بتائے گئے گراؤنڈز کا ہونا ضروری ہے،اس ریفرنس میں آرٹیکل 63 )ون( میں بتائے گئے گراؤنڈز میں سے ایک بھی لاگو نہیں ہوتا.

انہوں نے مؤقف اپنایا کہ اسپیکر نے الیکشن کمیشن کو درخواست کے اوپر ریفرنس بھیجا، الیکشن کمیشن نے متعلقہ ٹرائل کورٹ کو کیس بھیجا، جہاں اس پر باقاعدہ ٹرائل ہوگا، ٹرائل کورٹ اگر خلاف فیصلہ دیں تب الیکشن کمیشن نااہلی کا فیصلہ کریگا۔

بیرسٹر علی ظفر نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے 20 فیصد ادائیگی کے بعد تحفے حاصل کیے، چالان کی کاپی فراہم کی ہے۔

جس کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت 20 دسمبر تک ملتوی کر دی۔

خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں الیکشن کمیشن کی جانب سے نااہل قرار دیے جانے کے فیصلے کے خلاف عمران خان کی درخواست حتمی دلائل کے لیے 13 دسمبر کو مقرر کی تھی۔

پس منظر

واضح رہے کہ 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن نے عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا، فیصلے میں کہا گیا تھا کہ عمران خان کو جھوٹا بیان جمع کرانے پر آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت نااہل قرار دیا گیا ہے جہاں اس آرٹیکل کے مطابق وہ رکن فی الوقت نافذ العمل کسی قانون کے تحت مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) یا کسی صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب کیے جانے یا چنے جانے کے لیے اہل نہیں ہوگا۔

الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں عمران خان کو عوامی نمائندگی کے لیے نااہل قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان نے اپنے مالی اثاثوں سے متعلق حقائق چھپائے اور حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیے جھوٹا بیان جمع کرایا، جھوٹ بولنے پر عمران خان عوامی نمائندگی کے اہل نہیں رہے۔

الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کرنے کی بھی سفارش کی۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کہا گیا کہ عمران خان آرٹیکل 63 ون پی کے تحت نا اہل ہیں، سابق وزیراعظم نے جھوٹا بیان اور ڈیکلیئریشن جمع کروائی، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 167 اور 173 کے تحت کرپٹ پریکٹس کے مرتکب ہوئے اور توشہ خانہ سے حاصل تحائف اثاثوں میں ڈیکلیئر نہ کرکے دانستہ طور پر حقائق چھپائے۔

الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق ’ایک‘ کی ذیلی شق ’پی‘ کے تحت نااہل کیا جبکہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک برقرار رہے گی۔

یوں فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ کر دیا گیا اور ان کی نشست خالی قرار دے کر الیکشن کمیشن ضمنی انتخاب کروائے گا۔

توشہ خانہ ریفرنس

خیال رہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے دائر کیا جانے والا توشہ خانہ ریفرنس حکمراں اتحاد کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔

ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔

آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا تھا کہ 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔

واضح رہے کہ عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔

بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔

جواب میں بتایا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادا کر کے خریدا۔

اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024