یوکرین: روسی ڈرونز نے اوڈیسا شہر میں بجلی کے نظام کو تباہ کردیا
یوکرین کے حکام نے کہا ہے کہ روس کی جانب سے ایرانی ساختہ ڈرونز سے توانائی کی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، جس کے بعد سے شہر اوڈیسا میں غیر اہم انفراسٹرکچر کو بجلی کی فراہمی معطل ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق اوڈیسا شہر میں 15 لاکھ افراد بجلی سے محروم ہو گئے۔
یوکرین کے صد ولادیمیر زیلنکسی نے ویڈیو خطاب میں کہا کہ اوڈیسا شہر بہت مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے، بجلی کی اہم تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، بجلی بحالی میں ضرورت سے زیادہ وقت لگے گا، گھنٹے نہیں چند دن لگیں گے۔
یاد رہے کہ ماسکو اکتوبر سے یوکرین میں توانائی کے انفرااسٹرکچر کو نشانہ بنا رہا ہے۔
ولادیمیر زیلنکسی نے بتایا کہ ناورے یوکرین میں بجلی نظام کو بحال کرنے کے لیے 10 کروڑ ڈالر کی امداد بھیج رہا رہے۔
اوڈیسا کی علاقائی انتظامیہ کے ترجمان سرہی براچوک نے بتایا کہ شہر کی آبادی کو آنے والے چند دنوں میں بجلی بحال کر دی جائے گی تاہم نظام کو مکمل طور پر بحال ہونے میں 2 سے 3 مہینے لگ سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کی جانب سے فیس بک پر کئی گئی پوسٹ جس میں لوگوں کو شہر چھوڑنے پرغور کرنے کا مشورہ دینے کی بھی یوکرین کی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے تحقیقات کی جارہی ہے کہ یہ روس کی جانب سے ہائبرڈ جنگ کا ایک عنصر ہو سکتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس پوسٹ کو ڈیلیٹ کر دیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی نمائندے یا حکام نے ایسی کوئی کال نہیں دی۔
کیف نے کہا ہے کہ روس نے ایرانی ساختہ ڈرونز سے یوکرین میں سیکڑوں حملے کیے، یہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ اس سے شہریوں کی زندگیوں پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں، ماسکو نے کہا ہے کہ اس کے حملے ملٹری تھے اور شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔
یوکرین کے پراسیکیوٹر جنرل کے دفتر نے بتایا کہ اوڈیسا میں ایرانی ساختہ ڈورنز سے 2 توانائی کی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔
یوکرین کی مسلح افواج نے فیس بک پر بتایا کہ اوڈیسا اور میکولائیو کے جنوبی علاقوں میں 15 ڈرونز حملے کیے گئے جن میں سے 10 کو مار گرایا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تہران نے ماسکو کو ڈرونز فراہم نہیں کیے، کیف اور اس کے مغربی اتحادیوں نے کہا کہ یہ جھوٹ ہے۔
برطانیہ کی وزارت دفاع نے بتایا کہ انہیں یقین ہے کہ ایران آنے والے مہینوں میں روس کے لیے کی فوجی مدد میں اضافہ کرسکتا ہے، جس میں ممکنہ طور پر بلیسٹک میزائل کی فراہمی بھی شامل ہوسکتی ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں