نوبل انعام کے روسی، یوکرینی فاتحین کی پیوٹن پر تنقید، جنگ کو ’پاگل پن‘ قرار دے دیا
نوبل امن انعام حاصل کرنے والے روس اور یوکرین کے فاتحین نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی یوکرین میں جنگ کو ’پاگل پن‘ اور مجرمانہ قرار دیا۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں نوبل امن انعام کی تقریب منعقد کی گئی، جس میں روس یوکرین اور بیلاروس کے انسانی حقوق کے علمبرداروں نے نوبل ایوارڈ وصول کیا۔
جیل میں قید بیلاروس کے حقوق کے وکیل ایلس بیالیاسکی، روسی تنظیم میموریل کے چیئرمین یان راچنسکی اور یوکرین کے سینٹر فار سول لبرٹیز (سی سی ایل) کی سربراہ اولیکسینڈرا ماتویچک کو نوبل کمیٹی نے انسانی حقوق، جمہوریت اور امن کی بقا کے لیے جدوجہد پر نوبل انعام سے نوازا۔
سی سی ایل کی سربراہ اولیکسینڈرا ماتویچک نے کہا کہ دنیا میں سب سے زیادہ یوکرینی عوام امن چاہتے ہیں، لیکن جنگ جیسی حالت میں موجود اس ملک کے عوام ہتھیار ڈال کر امن حاصل نہیں کرسکتے۔
خیال رہے کہ سی سی ایل کا قیام 2007 میں عمل میں لایا گیا تھا اوراس ادارے نے مبینہ طور پر روسی فوجیوں کی جانب سے یوکرین میں جنگی جرائم پر روشنی ڈالی تھی۔
نوبل انعام کی تقریب سے کچھ گھنٹے قبل اولیکسینڈرا ماتویچک نے ’اے ایف پی‘ کو انٹرویو میں بتایا کہ ’روس کی یوکرین کے انرجی انفرااسٹرکچر پر بمباری کی وجہ سے انہیں اپنی نوبل انعام کی تقریر موم بتی کی روشنی میں لکھنی پڑی۔‘
روس کے یوکرین پر قبضے کے 9 ماہ کے دوران سی سی ایل نے 27 ہزار مبینہ جنگی جرائم کے کیسز درج کیے۔
انہوں نے تقریر کے دوران جذباتی انداز میں کہا کہ ’جنگ نے لوگوں کے ناموں کو ہندسوں میں تبدیل کردیا ہے، ہمیں جنگی جرائم کے تمام متاثرین کے ناموں کو دوبارہ یاد کرنے کی ضرورت ہے۔‘
اولیکسینڈرا ماتویچک نے عالمی عدالت سے اپیل کی کہ ولادیمیر پیوٹن اور ان کے اتحادی بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو اور دیگر مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
اس کے علاوہ انسانی حقوق کے ادارے میموریل کے چیئرمین اور روسی نوبل انعام یافتہ یان راچنسکی نے روس کے ’سامراجی عزائم‘ کی مذمت کی۔
انہوں نے کہا کہ پیوٹن اور ان کے ’نظریاتی ملازموں‘ نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے فاشزم کے خلاف جدوجہد کو ہائی جیک کر لیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ روسی مزاحمت اب فاشزم میں تبدیل ہوچکی ہے اور یوکرین کے خلاف جارحیت اور جنگ ایک نظریاتی جواز بن گیا ہے، انہوں نے تقریر کے دوران روس پر سخت الفاظ میں مذمت کی۔
سال 1989 میں قائم کیا گیا ادارہ ’میموریل‘ نے کئی دہائیوں تک جوزف ساٹالن کی ہمہ گیر حکومت کے جرائم پر روشنی ڈالی اور روس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی۔
اپوزیشن اور میڈیا پر کریک ڈاؤن کے دوران روس کی سپریم کورٹ نے سال 2021 کے آخر میں ’میموریل‘ کو تحلیل کرنے کا حکم دیا تھا۔