اعظم سواتی کوئٹہ سے قمبر شہداد کوٹ منتقل
پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی کو کوئٹہ سے سندھ کے علاقے قمبر شہداد کوٹ منتقل کردیا گیا۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق 9 دسمبر کو اعظم سواتی کو کوئٹہ سے سندھ پولیس کے حوالے کیا گیا تھا، ان کے خلاف سندھ کے ضلع قمبر شہداد کوٹ سمیت مختلف اضلاع میں مقدمات درج ہیں
پولیس نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اعظم سواتی سندھ پولیس کے حوالے ہیں۔
قمبر شہداد کوٹ کے ایس ایس پی صدام حسین خاشخیلی نے ڈان کو بتایا کہ اعظم سواتی طیارے کے ذریعے قمبرشہداد کوٹ منتقل ہونا چاہتے تھے تاہم ان کا جہاز کوئٹہ سے سکھر ایئرپورٹ پہنچا جہاں سے انہیں ہائی وے کے ذریعے قمبرشہداد کوٹ لے جایا گیا۔
پولیس افسر نے یہ نہیں بتایا کہ پی ٹی آئی رہنما کو کونسی عدالت میں ریمانڈ کے لیے پیش کیا جائے گا تاہم انہوں نے بتایا کہ ناصر آباد اور واراح پولیس اسٹیشن میں ان کے خلاف دو مقدمات درج ہیں، ابھی فیصلہ نہیں ہوا کہ کون سی عدالت میں پیش ہوں گے۔
شہری ضمیر حسین کھوسو کی شکایت پر ناصر آباد پولیس اسٹیشن میں تعزیرات پاکستان کی وفعہ 131، 153 اے، 504 اور 505 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، ایف آئی آر میں شکایت کنندگان مختلف ہیں لیکن ان کی دفعات ایک ہی طرح کی ہیں۔
اس کے علاوہ قمبر شہداد کوٹ میں درج 2 مقدمات کے علاوہ سینیٹر اعطم سواتی جیکب آباد، شکارپور کے عثمان عیسانی پولیس اسٹیشن اور لاڑکانہ کے سول لائنز پولیس اسٹیشن میں بھی مقدمات درج ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز 10 دسمبر کو کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے بلڈنگ قوانین کی خلاف ورزی پر پاکستان تحریک انصاف کے گرفتار سینیٹر اعظم سواتی کا اسلام آباد کے مری روڈ پر واقع فارم ہاؤس سیل کر دیا تھا۔
اعظم سواتی کو گزشتہ ماہ 27 نومبر کو اعلیٰ فوجی حکام کے خلاف متنازع ٹوئٹ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
گزشتہ ہفتے پولیس انہیں اسلام آباد سے کوئٹہ لے گئی تھی جہاں گزشتہ روز بلوچستان ہائی کورٹ نے ان کے خلاف 5 مقدمات کو خارج کر دیا تھا جس کے چند گھنٹوں بعد ہی انہیں وہاں سے سندھ پولیس نے صوبے میں درج مقدمات کے تحت اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔
یاد رہے کہ اعظم سواتی کو اس سے قبل آرمی چیف کے خلاف ٹوئٹ کرنے پر 12 اکتوبر کو گرفتار کیا گیا تھا۔
بعدازاں 27 نومبر کو فوجی افسران کے خلاف متنازع ٹوئٹ کرنے پر وفاقی تحقیقاتی ادارے نے اعظم خان کو دوبارہ گرفتار کیا تھا۔
پی ٹی آئی سینیٹر کے خلاف مقدمہ پیکا 2016 کی دفعہ 20 اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 131، 500، 501، 505 اور 109 کے تحت درج کیا گیا تھا۔