بنگلہ دیش: اپوزیشن کا ڈھاکا میں بڑا احتجاجی مظاہرہ
بنگلہ دیش کی مرکزی اپوزیشن جماعت کے ہزاروں حامیوں نے ڈھاکا میں وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے نئے انتخابات کا مطالبہ کیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی خبر کے مطابق مظاہرین نے گلاب باغ اسپورٹس گراؤنڈ میں منعقدہ جلسے کے دوران شیخ حسینہ ووٹ چور ہے کےنعرے لگائے جس کے بعد مظاہرین ارد گرد کی گلیوں میں پھیل گئے۔
منگل کے روز حزب اختلاف کی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے ہیڈ کوارٹر پر سیکیورٹی فورسز کے دھاوا بولنے کے بعد دارالحکومت میں صورتحال کشیدہ تھی جب کہ اس کارروائی کے دوران کم از کم ایک شخص ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔
بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے کہا کہ پارٹی کے 2 سرکردہ رہنماؤں کو گزشتہ روز تشدد پر اکسانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا جب کہ احتجاج کو روکنے کے لیے 30 نومبر سے اب تک 2 ہزار کارکنوں اور حامیوں کو حراست میں لے لیا گیا۔
اقوام متحدہ سمیت مغربی ممالک کی حکومتوں نے ایشیا میں تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں سے ایک بنگلہ دیش میں سیاسی عدم استحکام پر تشویش کا اظہار کیا۔
بنگلہ دیش کے امریکا کے ساتھ دیرینہ تعلقات رہے ہیں لیکن حالیہ برسوں کے دوران شیخ حسینہ نے چین کے ساتھ گہرے تعلقات استوار کیے ہیں جب کہ بیجنگ نے کئی ارب ڈالر کے انفرا اسٹرکچر منصوبوں میں سرمایہ کاری کی ہے۔
حزب اختلاف ملک بھر میں مظاہرے کر رہی ہے اور شیخ حسینہ سے استعفیٰ دینے اور نگراں حکومت کے تحت انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جسے وزیر اعظم نے یکسر مسترد کر دیا ہے۔
بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے ایک عہدیدار نے دعویٰ کیا کہ ہفتہ کی صبح تک تقریباً 2 لاکھ لوگ ریلی میں شامل ہوچکے تھے۔
پارٹی ترجمان ظہیرالدین سواپن نے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا بنیادی مطالبہ شیخ حسینہ کا استعفیٰ، پارلیمنٹ کی تحلیل اور ایک غیر جانبدار نگران حکومت کے تحت آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ہے۔
دوسری جانب ڈھاکا میٹروپولیٹن پولیس کے ترجمان فاروق احمد نے ان اعدادوشمار کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پنڈال میں 30 ہزار سے زیادہ افراد کی گنجائش ہی نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب تک کوئی تشدد نہیں ہوا لیکن سواٹ ٹیمز، انسداد دہشت گردی یونٹس اور کینائن اسکواڈز چوکس اور تیار ہیں۔
احتجاج کے دوران پولیس نے شہر کے داخلی راستوں پر چوکیاں قائم کیں اور تقریباً 2 کروڑ لوگوں کی آبادی پر مشتمل شہر میں سیکیورٹی کے سخت اقدامات کیے گئے تھے۔
صرف چند سائیکل رکشے اور کاریں ڈھاکا کی عام طور مصروف اور رش والی سڑکوں پر دیکھیں گئیں جب کہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے عہدیداروں نے حکومت پر الزام لگایا کہ اس نے لوگوں کو ریلی میں شامل ہونے سے روکنے کے لیے غیر سرکاری ٹرانسپورٹ ہڑتال کرانے کی کوشش کی ہے۔
مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے کارکنوں نے جمعے روز بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے کارکنوں پر حملہ کیا۔