• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

توشہ خانہ ریفرنس: نااہلی کے خلاف عمران خان کی درخواست پر جلد فیصلہ دیں گے،اسلام آباد ہائیکورٹ

شائع December 8, 2022
الیکشن کمیشن نے21 اکتوبر کو عمران خان  کو توشہ خانہ ریفرنس میں نااہل قرار دیا تھا—فائل فوٹو:ڈان نیوز
الیکشن کمیشن نے21 اکتوبر کو عمران خان کو توشہ خانہ ریفرنس میں نااہل قرار دیا تھا—فائل فوٹو:ڈان نیوز

اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں الیکشن کمیشن کی جانب سے نااہل قرار دیے جانے کے فیصلے کے خلاف سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی درخواست حتمی دلائل کے لیے 13 دسمبر کو مقرر کردی۔

الیکشن کمیشن کے نا اہلی فیصلے کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی، عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر ، الیکشن کمیشن کے وکلا و دیگر عدالت کے سامنے پیش ہوئے، مسلم لیگ (ن) کے رہنما محسن شاہ نواز رانجھا اپنے وکیل کے ہمراہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے محسن شاہ نواز رانجھا سے استفسار کیا کہ کیا آپ کا ریفرنس تھا ؟ محسن شاہ نواز رانجھا نے جواب دیا کہ ہم نے درخواست اسپیکر قومی اسمبلی کو دی تھی، اسپیکر قومی اسمبلی نے الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھیجا تھا۔

سابق وزیراعظم کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ عدالت اس حوالے سے الیکشن کمیشن کو مزید کوئی ایکشن لینے سے روک دے ، الیکشن کمیشن نے فوجداری کارروائی کے لیے کمپلینٹ فائل کی ہے، الیکشن کمیشن نے پارٹی سربراہ کو ہٹانے سے متعلق بھی کارروائی شروع کردی ہے۔

اس دوران الیکشن کمیشن کے نمائندے نے کہا کہ ہمیں تو عدالت نے پہلے ہی روک رکھا ہے، ہم کوئی کارروائی آگے نہیں بڑھا رہے ، وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 13 دسمبر کے لیے ایک اور نوٹس جاری کردیا ہے عدالت اس کو روک دے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے کہا کہ عدالت اس کیس کی جلد سماعت کر کے فیصلہ کر دے گی، اس کے ساتھ ہی عدالت عالیہ نے کیس حتمی دلائل کے لیے 13 دسمبر کو مقرر کرتے ہوئے مزید سماعت 13 دسمبر تک ملتوی کردی۔

پس منظر

واضح رہے کہ 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن نے عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا، فیصلے میں کہا گیا تھا کہ عمران خان کو جھوٹا بیان جمع کرانے پر آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت نااہل قرار دیا گیا ہے جہاں اس آرٹیکل کے مطابق وہ رکن فی الوقت نافذ العمل کسی قانون کے تحت مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) یا کسی صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب کیے جانے یا چنے جانے کے لیے اہل نہیں ہوگا۔

الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں عمران خان کو عوامی نمائندگی کے لیے نااہل قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان نے اپنے مالی اثاثوں سے متعلق حقائق چھپائے اور حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیے جھوٹا بیان جمع کرایا، جھوٹ بولنے پر عمران خان عوامی نمائندگی کے اہل نہیں رہے۔

الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کرنے کی بھی سفارش کی۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کہا گیا کہ عمران خان آرٹیکل 63 ون پی کے تحت نا اہل ہیں، سابق وزیراعظم نے جھوٹا بیان اور ڈیکلیئریشن جمع کروائی، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 167 اور 173 کے تحت کرپٹ پریکٹس کے مرتکب ہوئے اور توشہ خانہ سے حاصل تحائف اثاثوں میں ڈیکلیئر نہ کرکے دانستہ طور پر حقائق چھپائے۔

الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق ’ایک‘ کی ذیلی شق ’پی‘ کے تحت نااہل کیا جبکہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک برقرار رہے گی۔

یوں فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ کر دیا گیا اور ان کی نشست خالی قرار دے کر الیکشن کمیشن ضمنی انتخاب کروائے گا۔

توشہ خانہ ریفرنس

خیال رہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے دائر کیا جانے والا توشہ خانہ ریفرنس حکمراں اتحاد کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔

ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔

آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا تھا کہ 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔

واضح رہے کہ عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔

بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔

جواب میں بتایا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادا کر کے خریدا۔

اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024