الجزیرہ نے فلسطینی صحافی شیریں ابو عاقلہ کے قتل کا مقدمہ عالمی عدالت میں دائر کر دیا
الجزیرہ ٹی وی نے فلسطین سے تعلق رکھنے والی صحافی شیریں ابو عاقلہ کے قتل کا مقدمہ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (آئی سی سی) میں دائر کر دیا، جس میں اسرائیلی فورسز کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق قطر کے چینل الجزیرہ نے بتایا کہ فلسطینی نژاد امریکی صحافی کی موت کے حوالے سے نئے شواہد سامنے آئے ہیں، جنہیں 11 مئی کو جینن میں اسرائیلی آرمی کے چھاپے کی کوریج کے دوران گولی ماری گئی تھی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ نیدرلینڈز کے شہر ہیگ میں قائم انٹرنیشنل کریمنل کورٹ میں تحقیقات کے لیے کوئی بھی شخص یا گروپ پروسیکیوٹر کو شکایت درج کروا سکتا ہے لیکن عدالت اس بات کی پابند نہیں ہے کہ وہ اس قسم کے کیسز سنے۔
الجزیرہ نے بتایا کہ انہوں نے نئے شواہد اور ویڈیو جمع کروا دی ہے، جس میں واضح طور پر شیریں ابو عاقلہ اور ان کے ساتھیوں کو اسرائیلی فورسز نے براہ راست گولیاں ماریں۔
الجزیرہ کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حکام کی جانب سے کیا جانے والا دعویٰ کہ فائرنگ کے تبادلے میں غلطی سے صحافی ماری گئیں، بالکل بے بنیاد ہے۔
اے ایف پی کے صحافی نے دیکھا کہ الجزیرہ کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے مرکز میں کیس جمع کروایا۔
یاد رہے کہ آئی سی سی نے گزشتہ برس فلسطین میں ہونے والے جنگی جرائم کی تحقیقات کا آغاز کیا تھا لیکن اسرائیل آئی سی سی کا رکن نہیں ہے اور عدالت کے دائرہ کار سے اختلاف کرتا ہے۔
اسرائیل نے کہا کہ وہ شیریں ابو عاقلہ کی موت پر کسی غیر ملکی تحقیقات میں تعاون نہیں کرے گا۔
اسرائیل کے وزیراعظم یائر لیپد نے بیان میں کہا کہ کوئی بھی اسرائیل ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) کے اہلکاروں کے خلاف تحقیقات نہیں کرے گا اور ہمیں کوئی بھی خاص طور پر الجزیرہ جنگ میں اخلاقیات کے بارے میں درس نہ دے۔
یاد رہے کہ 5 ستمبر کو اسرائیلی حکام نے تحقیقاتی رپورٹ میں کہا تھا کہ ’قوی امکان ہے کہ اسرائیلی ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) کی جانب سے مشتبہ فلسطینی مسلح شخص کی جانب گولی چلائی گئی ہو اور وہ حادثاتی طور پر شیریں ابو عاقلہ کو جا لگی ہو‘۔
اسرائیلی عہدیدار نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ فوجی جہاں تھے وہاں شدید فائرنگ ہو رہی تھی اور انہوں نے صحافی شیریں ابو عاقلہ کو فلسطینی جنگجو سمجھ کر گولی چلا دی۔
11 مئی کو جب صحافی شیریں ابو عاقلہ کو اسرائیلی فوج کی جانب سے گولی مار کر قتل کیا گیا تو انہوں نے ہیلمٹ پہن رکھا تھا اور ایک بُلٹ پروف جیکٹ بھی پہن رکھی تھی جس پر واضع طور پر’پریس’ لکھا ہوا تھا۔
انفرادی اور گروپس کی جانب سے شکایات موصول ہونے کے بعد آئی سی سی کے پروسیکیوٹر آزادانہ طور پر فیصلہ کرتے ہیں کہ کن کیسز کو عدالت میں جج کے سامنے پیش کرنا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ بعد ازاں جج فیصلہ کرتے ہیں کہ پروسیکیوٹر کو ابتدائی تفیش کی اجازت دینی ہے یا نہیں، جس کے بعد باضابطہ طور پر تحقیقات کی جاتی ہیں۔
آئی سی سی نے بتایا کہ زیادہ تر کیسز میں ایسی شکایات پر تحقیقات نہیں ہوتیں۔