فیصل واڈا 2018 میں رکن اسمبلی بننے کیلئے اہل نہیں تھے، سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ
سپریم کورٹ نے سابق وفاقی وزیر فیصل واڈا کی تاحیات نااہلی ختم کرنے کی درخواست پر تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ فیصل واڈا 2018 میں رکن اسمبلی بننے کے اہل نہیں تھے۔
سپریم کورٹ نے فیصل واڈا نااہلی کیس کا مختصر تحریری فیصلہ جاری کر دیا جو 4 صفحات پر مشتمل ہے، جسے چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے تحریر کیا ہے۔
سپریم کورٹ نے تحریری فیصلے میں بتایا کہ فیصل واڈا نے عدالت کو بتایا کہ 25 جون 2018 کو شہریت ترک کرنے کا سرٹیفکیٹ ملا، فیصل واڈا نے تسلیم کیا کہ ان سے غلط بیانی ہوئی۔
سپریم کورٹ کا فیصلے میں مزید کہنا تھا کہ فیصل واڈا 2018 میں رکن اسمبلی بننے کے لیے اہل نہیں تھے۔
تحریری فیصلے کے مطابق فیصل واڈا کی جانب سے غلطی تسلیم کرنے پر آرٹیکل 63 (ون) (سی) کا اطلاق ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ فیصل واڈا موجودہ اسمبلی کی مدت تک نااہل تصور ہوں گے۔
تحریری فیصلے میں بتایا گیا کہ فیصل واڈا آئندہ انتخابات لڑنے کے لیے اہل ہوں گے، فیصل واڈا سینیٹ کی نشست سے اپنا استعفیٰ فوری طور پر چیئرمین سینٹ کو بھجوائیں۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس امیدوار کو الیکشن سے قبل نااہل کرنے کا اختیار نہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی قانون کی نظر میں برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔
تحری فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن اور ہائی کورٹ کا تاحیات نااہلی فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے 25 نومبر کو سابق وفاقی وزیر فیصل واڈا کی تاحیات نااہلی ختم کرنے کی درخواست پر سماعت کے دوران ان کی تاحیات نااہلی ختم کرتے ہوئے موجودہ اسمبلی کے لیے نااہل قرار دے دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے سابق وفاقی وزیر کو دو آپشن دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنی غلطی تسلیم کریں اور 63 (ون) (سی) کے تحت نااہل ہو جائیں یا بصورت دیگر عدالت 62 (ون) (ایف) کے تحت تاحیات نااہلی کیس میں پیش رفت کرے گی۔
فیصل واڈا نے الیکشن کمیشن کی جانب سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد جنوری میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے نااہلی کے خلاف درخواست مسترد کرنے کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ آپ نے دوہری شہریت ترک کرنے کی درخوست دے رکھی تھی؟ اس پر منظوری نہیں ہوئی تھی، غلطی تسلیم کرتے ہیں تو پانچ سال کے لیے نااہل ہوں گے، نہیں کرتے 62 (ون) (ایف) کے تحت تاحیات نااہلی پر کیس سنیں گے۔
انہوں نے کہا تھا کہ اعتراف کرتے ہیں تو ممکن ہے 63 (ون) (سی) میں رکھیں، انکار کرتے ہیں تو کیس دوسری طرف جاسکتا ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ سینیٹ الیکشن لڑا تو دوہری شہریت نہیں تھی؟ چیف جسٹس نے کہا کہ شرمندگی کے لیے نہیں بلایا، ہمارا ارادہ نہیں اراکین کو بے توقیر کیا جائے گا، نامزدگی اور ڈیکلریشن کے بارے میں اراکین کو سنجیدہ ہونا ہوگا۔