امریکا کی افغانستان میں پاکستانی سفارتخانے پر حملے کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ
امریکا نے افغان دارالحکومت کابل میں واقع پاکستانی سفارتخانے پر ہونے والے حملے کی سخت مذمت کرتے ہوئے مکمل اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈ پرائس نے مذمت کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کابل میں پاکستانی سفارتخانے پر حملے اور ملک کے سفارت خانے کے ناظم الامور عبید الرحمٰن نظامانی پر قاتلانہ حملے کی شدید مذمت کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ناظم الامور پر حملے پر ہمیں شدید تحفظات ہیں اور واقعہ کی مکمل اور شفاف تحقیقات چاہتے ہیں۔
اس کےعلاوہ اقوام متحدہ نے بھی حملے کی مذمت کی ہے، امریکی ریاست نیو یارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکواٹر میں میڈیا بریفنگ کے دوران سیکریٹری جنرل اسٹیفن ڈوجاک نے کہا کہ افغانستان میں سلامتی اور خطے میں امن کےلیے اقوام متحدہ کردار ادا کرنے کا عزم رکھتا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ’شکر ہے کہ حملے میں سفارتی مشن کے نائب سربراہ عبید الرحمٰن نظامانی کو کوئی نقصان نہیں ہوا‘۔
سیکریٹری جنرل نے کہا کہ اقوام متحدہ چاہتا ہے کہ افغانستان میں حالات بہتر ہوں اور وہ خطے میں امن کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔
سیکریٹری جنرل نے اپنے بیان میں حملے کی مذمت کرتے ہوئے تمام اراکین پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ سفارتی اور قونصلر کے احاطے کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔
قبل ازیں سرکاری خبر رساں ادارے ’اے پی پی‘ کے مطابق افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے پاکستان کے وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری کو فون کیا اور حملے کی مذمت کی تھی۔
اس کے علاوہ امیر خان متقی نے کہا تھا کہ افغانستان دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پرعزم ہے، انہوں نے یقین دلایا کہ حملے کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائےگا۔
خیال رہے کہ یہ حملہ گزشتہ روز افغانستان کے دارالحکومت کابل میں پاکستانی کے سفارت خانے پر حملہ کیا گیا جہاں ناظم الامور عبید الرحمٰن نظامانی کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تاہم وہ محفوظ رہے جبکہ ایک سیکیورٹی گارڈ شدید زخمی ہوگیا۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ کابل میں پاکستانی سفارت خانے پر حملہ کیا گیا جہاں ہیڈ آف مشن عبیدالرحمٰن نظامانی محفوظ رہے جبکہ ایک محافظ شدید زخمی ہوگیا۔
عبیدالرحمٰن نظامانی گزشتہ ماہ کابل میں پاکستانی سفارت خانے پہنچے تھے۔
حالیہ کچھ ماہ میں افغانستان میں کئی بم دھماکے اور فائرنگ کے واقعات ہو چکے ہیں جن میں سے کچھ کی ذمہ داری کالعدم داعش نے قبول کی ہے۔
خیال رہے کہ رواں ہفتے بدھ کو شمالی افغانستان میں ایک مدرسے میں بم دھماکا ہوا تھا جس کے نتیجے میں 15 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
گلبدین حکمت یار نے 1970 کی دہائی میں اپنی جماعت حزب اسلامی کی بنیاد ایک اہم مجاہدین گروپ کے طور پر رکھی جو 1980 کی دہائی میں افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے خلاف پاکستان میں قائم اپنے مرکز سے جنگ کر رہی تھی۔
گلبدین حکمت یار 1990 کی دہائی میں دو بار وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہے۔