ایران: حکام کا مظاہروں میں 200 افراد کی ہلاکت کا اعتراف، صدر کی جانب سے نظام کا دفاع
ایران کے حکام نے ملک میں جاری مظاہروں کے دوران سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں سمیت 200 افراد کی ہلاکت کا اعتراف کیا ہے جبکہ صدر ابراہیم رئیسی نے موجودہ نظام کا دفاع کرتے ہوئے انسانی حقوق اور آزادی کا ضامن قرار دیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے کہا کہ اسلامی ملک انسانی حقوق اور آزادی کی ضمانت دیتا ہے جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق حکومت مخالف مظاہروں پر کریک ڈاؤن کے نتیجے میں 300 سے زائد افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
دوسری جانب، ملک کے سرفہرست سیکیورٹی ادارے نے کہا ہے کہ سیکیورٹی فورسز سمیت 200 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں، انسانی حقوق گروپس کی جانب سے دی گئی تعداد کے مقابلے میں یہ تعداد نمایاں طور پر کم بتائی گئی ہے۔
22 سالہ مہسا امینی کی اخلاقی پولیس کی حراست میں جاں بحق ہونے کے بعد سے ملک بھر میں تیسرے مہینے بھی مظاہرے جاری ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ مظاہرے 1979 میں اسلامی انقلاب کے بعد اقتدار میں آنے سے لے کر اب تک ایرانی حکومت کے لیے چند بڑے چینلجوں میں سے ایک ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ظالمانہ کریک ڈاؤن کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مظاہرین نے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے خلاف نعرے لگائے ہیں، اور بارہا اسلامی حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایرانی حکام مظاہروں میں غیر ملک دشمنوں کو ملوث قرار دیتے ہیں، جس میں امریکا، سعودی عرب اور اسرائیل شامل ہیں۔
ابراہیم رئیسی نے اراکین اسمبلی سے خطاب میں ایک نامعلوم افریقی وکیل کے حوالے سے کہا کہ ایران کا آئین دنیا بھر میں بہت زیادہ ترقی پسند ہے کیونکہ اس میں جمہوری نظریات شامل ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ان کی وکیل سے کئی برس قبل ملاقات ہوئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ آئین اسلامی نظام کا ضامن ہے، اور یہ بنیادی حقوق کے ساتھ آزادی کی بھی ضمانت دیتا ہے۔
میزان نیوز ایجنسی نے وزارت داخلہ کی سرکاری سیکیورٹی کونسل کے حوالے سے بتایا کہ فسادات میں اب تک 200 افراد جان سے چلے گئے ہیں۔
رپورٹ میں پاسداران انقلاب کے سینئر کمانڈر امیر علی حاجی زادہ کے حوالے سے بتایا گیا کہ حالیہ فسادات میں 300 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سیکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کی جانب سے ایران کیلئے تقرر کیے جانے والے ماہر جاوید رحمٰن نے بتایا کہ مظاہروں میں 300 سے زیادہ لوگ جاں بحق ہوئے ہیں، جن میں 40 بچے بھی شامل ہیں۔
ہرنا نیوز ایجنسی نے بتایا تھا کہ 469 مظاہرین مارے گئے ہیں، جن میں 64 بچے بھی شامل ہیں جبکہ 61 سیکیورٹی اہلکار بھی ہلاک ہوئے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ 18 ہزار 210 مظاہرین کو گرفتار کیا گیا ہے۔
معروف بلوچ سنی عالم مولوی عبدالحامد نے مظاہرین پر ظلم بند کرنے اور ایران میں حکومتی نظام کو تبدیل کرنے کے حوالے سے ریفرنڈم کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔
انہوں نے نومبر کے آخر میں بتایا تھا کہ عوام کے احتجاج سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ 43 سال کی پالیسیاں اپنے انجام تک پہنچ چکی ہیں۔