مونس الٰہی کے بیان نے ادارے کے غیرسیاسی ہونے کے موقف پر شکوک و شبہات کھڑے کردیے، وزیر داخلہ
وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ سابق چوہدری مونس الٰہی کے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے حوالے سے بیان نے ادارے کے غیرسیاسی ہونے کے مؤقف پر شبہات اٹھائے ہیں جس کی وضاحت ہونی چاہیے۔
لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا کہ مسلم لیگ (ق) کے رہنما مونس الٰہی کو یہ بیان دینے پر داد دیتا ہوں لیکن آخر انہیں یہ بات کرنے کی کیا ضرورت تھی، میں سمجھتا ہوں کہ اس سے اگر باجوہ صاحب کو ذاتی طور پر کوئی نقصان پہنچا بھی ہے تو وہ اب جا چکے ہیں، اپنی ملازمت کا بھرپور وقت گزار کر جا چکے ہیں، ان کا فائدہ اور نقصان معنی نہیں رکھتا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ادارے نے قوم کے سامنے موقف اختیار کیا تھا کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اور پچھلے سال سے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ سیاست میں بالکل دخل نہیں دینا، میں سمجھتا ہوں کہ چوہدری مونس الٰہی کے اس بیان نے ادارے کے اس موقف پر بھی شکوک و شبہات کھڑے کر دیے ہیں، اس کی وضاحت ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں پورا یقین ہے کہ قوم کے ساتھ ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی نے جو وعدہ کیا ہے وہ درست ہے اور اسی کے مطابق ادارہ اپنا قومی فرض اور اس ملک کی خدمت کو انجام دے گا تاکہ سیاست اور معاملات پاکستان کی بہتری میں آگے بڑھیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز مسلم لیگ(ق) کے رہنما اور وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کے صاحبزادے مونس الٰہی نے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر جاری تنقید کو زیادتی قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے موقع پر جنرل باجوہ نے ان کی جماعت کو تحریک انصاف کا ساتھ دینے کا مشورہ دیا تھا۔
نجی ٹی وی کے پروگرام میں میزبان مہر بخاری سے گفتگو کرتے ہوئے مونس الٰہی نے کہا تھا کہ سوشل میڈیا پر ایک طبقہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر بلاوجہ تنقید کررہا ہے، یہ وہی باجوہ صاحب ہیں جنہوں نے دریا کا مکمل رخ پی ٹی آئی کے لیے موڑا ہوا تھا، تب وہ بالکل ٹھیک تھے اور آج وہ ٹھیک نہیں رہ گئے، تو جو بھی کوئی باجوہ صاحب کے خلاف بات کرتا ہے تو میرا اس چیز پر بہت اختلاف ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ جب باجوہ صاحب آپ کی مکمل حمایت کررہے تھے تو وہ بالکل ٹھیک تھا لیکن اب وہ غدار بن گیا ہے، میں نے تو پی ٹی آئی والوں سے کہا کہ ٹی وی پر آنا ہے تو آجاؤ، تم مجھے ثابت کرو کہ وہ کیسے غدار ہے، میں تمہیں بتاتا ہوں کہ اس بندے نے تمہارے لیے کیا کچھ کیا ہے، میں نے تو دونوں طرف سے بھگتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج پی ٹی آئی کو بہت غلط فہمیاں ہیں، اگر پی ٹی آئی میں کسی کو بھی یہ لگتا ہے کہ باجوہ صاحب کا 0.1فیصد قصور ہے تو وہ میرے ساتھ بیٹھے تو میں انہیں بتاتا ہوں کہ ان کا قصور کہاں نہیں ہے، انہوں نے بہت زیادہ فیور کیا، کئی مواقعوں پر مسئلے کھڑے ہو گئے تھے تو وہ ذاتی طور پر ملک میں اور بیرون جا کر مسئلے حل کرتے رہے ہیں۔
’پارلیمانی جمہوری نظام میں مذاکرات سے انکار ممکن نہیں‘
وزیر داخلہ نے کہا کہ فرح گوگی عمران خان کی ’فرنٹ مین‘ تھیں جن کے ذریعے جہازوں میں جو پیسے بیرون ممالک منتقل ہوئے وہ الگ ہیں مگر 12 ارب روپے بینک کے ذریعے بھی منتقل ہوئے تو اگر ان کو جیل جانا ہے اور یہ مقدمات بننے ہیں تو ہم نہیں بنا رہے، یہ ان کے کالے کرتوت ہیں جن کا انہوں نے کبھی جواب نہیں دیا۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ جو میرے خلاف منشیات کا کیس بنایا گیا کیا کبھی انہوں نے اس بات کا جواب دیا، میں تو آج بھی چلینج کرتا ہوں کہ ان کا بھی خون کا ٹیسٹ کیا جائے اور میرا بھی، پھر دیکھا جائے کہ کس کے خون میں نشے کے اثرات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ القادر ٹرسٹ کے لیے ایک اسٹیٹ ٹائکون سے 5 ارب روپے کی زمیں خرید کر اس ملک کو 50 ارب روپے کا ٹیکا لگایا گیا، اسی طرح توشہ خان سے گھڑیاں چوری کرکے ملک اور قوم کی عزت کو نقصان پہنچایا گیا جس کی وجہ سے پوری دنیا میں پاکستان کا تماشا ہوا۔
انہوں نے کہا کہ اگر عمران خان کو جیل میں جانا ہے یہ مقدمات بن رہے ہیں تو یہ ’جینوئن‘ چیزیں ہیں جس میں کوئی غلط بات نہیں ہے۔
وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا کہ سیاست میں مذاکرات اور گفتگو کے بغیر کے آپ آگے نہیں بڑھ سکتے اور پارلیمانی جمہوری نظام میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف گاڑی کے دو پہیے ہیں اور یہ پسند نا پسند کی بات نہیں بلکہ لوگ منتخب کرتے ہیں۔
وفاقی وزیر نے عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ سیاستدان اس ملک کی سیاست پر وارد ہوا اور 2014 سے کہتا رہا ہے کہ میں اپنے سیاسی مخالفین کو چھوڑوں گا نہیں اور ان کے ساتھ بیٹھنے سے بہتر ہے کہ مر جاؤں۔
انہوں نے کہا کہ کل تک ان کا یہ منترا رہا ہے اور کل پہلی دفعہ انہوں نے ساتھ بیٹھنے کی بات کی ہے مگر ہم نے اس سے قبل اس بات پر غور نہیں کیا کیونکہ ہم سمجھتے تھے کہ وہ مرنے مارنے پر تیار ہیں، اب ایک دو روز میں وزیراعظم اتحادیوں کے ساتھ بیٹھیں گے اور جو بھی مشترکہ فیصلہ ہوگا اس کے مطابق آگے بڑھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ میں ذاتی طور پر اس بات کا حامی ہوں کہ مذاکرات یا گفتگو سے انکار پارلیمانی جمہوری نظام میں ممکن نہیں ہے۔
پنجاب اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک لانے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس پر ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا مگر اس معاملے پر قائد نواز شریف سے ہدایات لیں گے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیاں تحلیل نہیں ہوں گی جبکہ خیبرپخونخوا اور پنجاب میں اگر عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے تو وفاقی حکومت برقرار رہے گی جبکہ اگر صرف پنجاب میں ضمنی یا عام انتخابات کیے جائیں تو بھی ہم بہتر پوزیشن میں ہوں گے۔