حکومت کو موقع دیتے ہیں، ہمارے ساتھ بیٹھیں ورنہ اسمبلیاں تحلیل کر دیں گے، عمران خان
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ الیکشن کا نام نہیں لیتے، یہ الیکشن سے ڈرے ہوئے ہیں لیکن ہم ان کو موقع دیتے ہیں، ہمارے ساتھ بیٹھیں ورنہ ہم اسمبلیاں توڑ دیں گے۔
پی ٹی آئی پنجاب کی پارلیمانی پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ یا تو ہمارے ساتھ بیٹھیں، بات کریں، ہمیں عام انتخابات کی تاریخ دیں، نہیں تو پھر ہم اپنی اسمبلیاں تحلیل کردیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو یہ موقع دے سکتے ہیں کہ ہمارے ساتھ بیٹھیں، کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ صرف 66 فیصد پاکستان میں انتخابات ہوں اور آپ وفاق میں بیٹھے رہیں۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے بڑی کوشش کی ہے لیکن یہ انتخابات کا نام ہی نہیں لیتے، صرف ایک وجہ ہے کہ ان کو ڈر لگا ہوا ہے کہ جیسے ہی الیکشن ہوں گے، یہ پٹ جائیں گے اور اس کے لیے ان کو ملک کی کوئی فکر نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر پاکستانی کو فکر مند ہونا چاہیے، یہ ایسے حالات پیدا کر رہے ہیں کہ جب یہ جائیں گے تو ایسے حالات ہو جائیں گے کہ جو بھی حکومت آئے گی وہ سنبھال نہیں سکے گی۔
انہوں نے کہا کہ ان لوگوں نے 2008 سے 2018 تک 4 گنا قرضے بڑھائے، جس پر اب سود دینا پڑتا ہے، پاکستان نے قرض کی قسطیں ادا کرنی ہیں، اگر آمدنی نہیں بڑھتی تو قرض واپس کرنے کی ہماری استطاعت کم ہوتی جائے گی۔
سابق وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ہمارے دور حکومت میں برآمدات میں اضافہ اور ٹیکس ریونیو بھی بڑھ رہا تھا، انہوں نے آتے ہی فیصلے کیے تو مارکیٹ میں افراتفری پھیل گئی اور روپیہ گرنا شروع ہوگیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ ملک کو ڈیفالٹ کی طرف لے کر جارہے ہیں، اگر کوئی بیل آؤٹ بھی کرے گا تو پاکستان کی نیشنل سیکیورٹی خطرے میں پڑ جائے گی۔
عمران خان نے کہا کہ سی ڈی ایس ہوتا ہے کہ پاکستان کی قرض واپس کرنے کی صلاحیت کیا ہے، یہ ہمارے دور میں 5 فیصد تھا کہ پاکستان قرضے واپس نہیں کرسکے گا، آج 100 فیصد سے اوپر پہنچ گیا ہے، باہر کی دنیا سمجھتی ہے کہ پاکستان قرضے واپس نہیں کرسکتا۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ حکومت کے پاس کیا طریقہ ہے کہ ملک کو اس صورت حال سے نکالیں گے، ان کے پاس کوئی روڈمیپ نہیں ہے، اسحٰق ڈار نے شروع میں آ کر کہا کہ میں موڈیز کو بھی ٹھیک کردوں گا، آئی ایم ایف کو بھی ٹھیک کر دوں گا، آج وہ چپ کرکے بیٹھ گیا ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ باہر سے لوگ پاکستان میں نہ سرمایہ کاری کریں گے، نہ باہر کے کمرشل بینک پاکستان کو قرضے دیں گے کیونکہ پاکستان کے ڈیفالٹ کا خطرہ 100 فیصد سے بڑھ گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے دور میں صنعتی ترقی 10.7 فیصد تھی، جس سے نوکریاں مل رہی تھیں، فیصل آباد میں ٹیکسٹائل کی صنعت کو مزدور نہیں مل رہے تھے، آج صنعتی ترقی کی شرح ایک فیصد پر آ گئی ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ہمارے دور میں 4 بمپر فصلیں ہوئی تھیں، آج کسان اس لیے رو رہا ہے کہ ڈیزل کی قیمت کہاں سے کہاں چلی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ جب تحریک عدم اعتماد لائے تھے تو ڈالر 178 روپے کا تھا، آج ان کے آفیشل ریٹ کو چھوڑیں، مارکیٹ میں ڈالر 250 روپے پر نہیں مل رہا، جس کی وجہ سے لاگت اوپر چلی گئی ہے، 50 سال میں سب سے زیادہ مہنگائی ہوئی ہے اور بے روزگاری بھی بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے اسٹریٹ کرائمز میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ ہماری لیے کوئی نقصان نہیں ہو رہا، گالیاں تو ان کو پڑ رہی ہیں لیکن ملک بیٹھتا جا رہا ہے، اگر ہم ابھی الیکشن کی طرف نہیں جاتے تو سیاسی استحکام نہیں آئے گا، جب تک سیاسی استحکام نہیں آئے گا، معیشت میں بھی استحکام نہیں آئے گا اور ان کے پاس اس کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا ٖفیصلہ کرلیا ہے، اس کا مقصد پاکستان ہے، ہمارے ملک کو اس وقت ضرورت ہے کہ ہم جلدی سے الیکشن میں جائیں، اس لیے کہ جب مستحکم حکومت آئے گی، باہر اور ملک میں مارکیٹس کو اعتماد ہوگا کہ حکومت 5 سال کے لیے آگئی ہے، پھر لوگ منصوبہ بندی کریں گے۔
عمران خان نے کہا کہ سرمایہ کار ہمیشہ سوچتا ہے کہ جب میں پیسہ لگاؤں گا تو ملک میں ایک سال، 2 سال یا 3 سال کے بعد کیا ہوگا کیونکہ اس کو ایک دم نفع ملنا شروع نہیں ہوتا، جب اس کو اعتماد ہی نہیں ہوگا کہ حکومت کتنی دیر چلے گی، آگے کیا ہوگا، تو وہ پیسہ روک کر بیٹھ جاتے ہیں، جو آج پاکستان میں ہوا ہے، اس لیے الیکشن کروانے ہیں تاکہ سیاسی استحکام سے معاشی استحکام آئے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ دوسرا مسئلہ صوبوں کے اندر ہے، پنجاب میں 176 ارب روپے وفاق نے دینے تھے جو انہوں نے نہیں دیے، خیبرپختونخوا ایک چھوٹا سا صوبہ ہے، وفاق نے 120 ارب روپے دینے تھے، وہاں پر بھی شارٹ فال آگیا۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ اور آزاد کشمیر کے وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ وفاق پیسے نہیں دے رہا، میں نے سنا ہے کہ بلوچستان میں بھی یہی مسئلہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف تو ملکی معیشت نیچے جارہی ہے تو دوسری طرف صوبوں کے اندر بحران آ گیا ہے، صوبائی حکومتوں کے اگر پروجیکٹس ہی پورے نہیں ہوں گے، تو ہم پرفارمنس کیسے دکھائیں گے؟ صوبوں میں ایک دوسرا خوف آگیا ہے۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ سب کچھ دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا تھا کہ یا تو یہ ہمارے ساتھ بیٹھیں اور یہ سوچ لیں کہ اگر ہم پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرتے ہیں تو تقریباً 66 فیصد پاکستان میں انتخابات ہوں گے، باقی کام ویسے ہی رک جائے گا، پی ڈی ایم کی 13 جماعتوں نے بھی الیکشن میں نکل جانا ہے، اس طرح وفاقی حکومت تو فریز (منجمد) ہوگئی۔
ان کا کہنا تھا کہ یا تو ہمارے ساتھ بیٹھیں، بات کریں، ہمیں عام انتخابات کی تاریخ دیں، نہیں تو پھر ہم اپنی اسمبلیاں تحلیل کردیں گے۔
سابق وزیراعظم نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کو یہ موقع دے سکتے ہیں کہ ہمارے ساتھ بیٹھیں، کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ صرف 66 فیصد پاکستان میں انتخابات ہوں اور آپ وفاق میں بیٹھے رہیں، ہم نے بڑی کوشش کی ہے یہ انتخابات کا نام ہی نہیں لیتے، صرف ایک وجہ ہے، ان کو ڈر لگا ہوا ہے جیسے ہی الیکشن ہوں گے، یہ پٹ جائیں گے اور اس کے لیے ان کو ملک کی کوئی فکر نہیں ہے۔
عمران خان نے کہا کہ ان کا روڈ میپ یہ نظر آریا ہے کہ ہمارے اوپر کیسز کریں، کسی طرح عمران خان کو نااہل کروائیں، مجھے بتایا گیا ہے کہ آصف زرداری نے تو غالباً کہہ ہی دیا ہے کہ عمران خان کو نااہل کریں یا جیل میں ڈالیں، ان کا بس یہ ایک پلان ہے۔
حکومتی اتحاد کے حوالے سے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کا دوسرا منصوبہ یہ ہے کہ اپنے کیسز ختم کریں، اس ملک پر 1100 ارب کا ڈاکا مارا گیا، یہ نیب کا قانون تبدیل کرکے اپنے سارے کیسز ختم کروا رہے ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ملک ان سے سنبھالا نہیں جارہا، ہمارے ساتھ پاکستان مسلم لیگ (ق) مکمل طور پر کھڑی ہے، وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی نے آکر پورا اعتماد دیا ہے کہ جب بھی میں چاہوں گا وہ اسمبلی تحلیل کردیں گے، ہمارے پاس آپشن ہے۔
انتخابات اکتوبر 2023 میں ہوں گے، مریم اورنگزیب
دوسری جانب، چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے مطالبے پر ردعمل دیتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ انتخابات اکتوبر 2023 میں ہوں گے۔