وہ تاریخی ٹیسٹ جب میڈیا نمائندگان کو بطور متبادل کھلاڑی میدان میں اترنا پڑا
جب 17 سال بعد انگلینڈ کرکٹ ٹیم نے ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کے لیے پاکستان کا دورہ کیا تو ہر طرف اس بات کی خوشی منائی جارہی تھی اور اس لمحے کا انتظار کیا جارہا تھا کہ کب یکم دسمبر آئے اور پاکستان اور انگلینڈ کی ٹیمیں میدان میں مدِمقابل آئیں۔
مگر اس سے پہلے کہ یہ مقابلہ منعقد ہوتا، یہ بُری خبر سننے کو ملی کہ پاکستان کے دورے پر آئی آدھی سے زائد انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم وائرس کا شکار ہوچکی اور اسی وجہ سے گزشتہ روز پریکٹس سیشن میں شرکت بھی نہیں کرپائی تھی جس کے بعد یہ دورہ خطرے میں پڑ گیا تھا۔
تاہم، آج صبح اچھی خبر یہ ملی کہ تمام خطرے کے بادل چَھٹ چکے ہیں اور طے شدہ شیڈول کے مطابق انگلینڈ اور پاکستان کا پہلا ٹیسٹ میچ شروع ہوچکا ہے۔
ہر کوئی یہ امید کررہا تھا کہ انگلینڈ کی ٹیم نہ صرف جلد سے جلد صحت یاب ہوجائے بلکہ میچ کے دوران کھلاڑیوں کی صحت اچھی رہے تاکہ وہ مناظر دوبارہ نہ دیکھنے پڑیں جب بیمار کھلاڑیوں کی جگہ میدان میں صحافیوں اور کومنٹیٹرز کو متبادل کے طور پر بھیجا گیا تھا۔
جی ہاں، آپ نے بالکل ٹھیک پڑھا کہ جب ایک انٹرنیشل ٹیسٹ میچ میں صحافیوں اور کومنٹیٹرز کو میدان میں متبادل کے طور پر اترنا پڑا۔
مجھے یہ واقعہ اچھی طرح یاد ہے جو 89ء-1988ء میں نیوزی لینڈ کے دورہ بھارت کے دوران پیش آیا۔
معاملہ یہ ہے کہ 3 ٹیسٹ میچوں کی سیریز کا پہلا میچ بنگلور میں کھیلا گیا جس میں بھارتی ٹیم نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 9 وکٹوں پر 384 رنز بنائے تھے۔ لیکن پھر فوڈ پوئسننگ یا اس جیسے کسی وائرس کی وجہ سے کیوی ٹیم کے زیادہ تر کھلاڑیوں کے لیے کھیل جاری رکھنا مشکل ہوگیا تھا۔
اس میچ کے دوران متاثرہ کیوی کھلاڑی اپنا پیٹ پکڑے میدان کے اندر اور باہر جاتے نظر آئے اور بلآخر انہیں احساس ہوا کہ اب ان کے لیے میدان میں کھڑے رہنا ناممکن ہوچکا ہے۔
اس موقع پر نیوزی لینڈ کی ٹیم کے کپتان جان رائٹ نے میڈیا کوریج ٹیم کے افراد کو متبادل فیلڈرز کے طور پر ٹیم میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس فیصلے سے 16 سال قبل ریٹائر ہونے والے نیوزی لینڈ کے کھلاڑی جیریمی کونے کو بھی حوصلہ ملا جو بطور کومنٹیٹر اس میچ کو کور کر رہے تھے، اور وہ ٹیسٹ میچ کا سفید یونیفارم پہن کر نہ صرف خود میدان میں اترے بلکہ اپنے ساتھ 4 کیوی صحافیوں کو بھی میدان میں لے آئے۔
تو یوں اس میچ میں نیوزی لینڈ کی ٹیم کی جانب سے 5 میڈیا نمائنگان فیلڈنگ کر رہے تھے جبکہ ان میں سے ایک نے تو کور پر لگنے والی چند ممکنہ باؤنڈریز کو بھی روکا۔
سوچتا ہوں کہ اگر ان میڈیا نمائندگان میں سے کوئی شخص کیچ آؤٹ یا رن آؤٹ کرتا تو شاید وہ امر ہی ہوجاتا۔ کم از کم وہ اپنی فیملی اور آنے والی نسل کو ضرور بتاتا کہ اس ٹیسٹ میچ میں، میں نے کیچ لیا تھا اور میں ایک ٹیسٹ کرکٹر بھی ہوں۔ یہ سب کچھ کسی افسانے جیسا لگتا ہے۔
بنگلور میں ہونے والا یہ ٹیسٹ میچ بھارت نے 172 رنز سے جیت لیا تھا۔ تاہم، نیوزی لینڈ کی ٹیم کے کھلاڑیوں کو صحت کے حوالے سے مزید کسی سنگین صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
میں امید کرتا ہوں کہ راولپنڈی میں منعقد ہونے والے پاک-انگلینڈ پہلے ٹیسٹ میچ میں ایسی صورتحال پیدا نہ ہو لیکن اگر ایک بار پھر میڈیا نمائندگان اور کومنٹیٹر کو میدان میں اترنا پڑگیا تو یقیناً یہ کافی دلچسپ خبر ہوگی۔