’آرمی چیف کو تاحیات توسیع کی پیشکش، مخالفین کےخلاف جھوٹے کیسز بھی قائد اعظم کا فرمان تھا؟‘
وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے سابق وزیر اعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیا یہ قائد اعظم کا فرمان تھا کہ چیف آف آرمی اسٹاف کو کمرے میں بند کرکے تاحیات توسیع کی پیشکش کریں اور سیاسی مخالفین کے خلاف جھوٹے کیسز بنائیں۔
وزیراطلاعات مریم اورنگزیب نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اعظم نذیر تارڑ کا استعفیٰ مسترد کردیا گیا تھا اور آج کابینہ اجلاس میں وہ موجود تھے جہاں وزیراعظم اور کابینہ اراکین نے ان کی صلاحیت کو سراہا۔
انہوں نے کہا کہ کوئٹہ کے علاقے بلیلی میں سیکیورٹی وین پر ہونے والی خودکش حملے کی مذمت کی گئی اور شہدا کے لیے فاتحہ خوانی اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیو وائرس کے خاتمے کے لیے ورکرز کے کردار کو کابینہ نے خراج تحسین پیش کیا اور پولیو کے خاتمے کے لیے قومی جذبےکو سراہا گیا۔
انہوں نے کہا کہ وزارت خوراک کی جانب سے ملک کے اندر گندم کی طلب اور رسد کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی گئی اور بتایا گیا کہ گندم کے ذخائر گزشتہ برس کے مقابلے میں زیادہ ہیں اور رواں برس گندم کی مجموعی طلب کا اندازہ 30.79 ملین میٹرک ٹن ہے۔
مریم اورنگزیب کا کہنا تھاکہ سیلاب کے دوران ملک کا ایک تہائی حصہ زیرآب آگیا تھا لیکن مؤثر منصوبہ بندی کی وجہ سے ذخائر پچھلے سال سے زیادہ بھی ہیں اور طلب اور رسد کا خلا بھی کم ہوگیا ہے اور اس کے ساتھ انتظامات کیے گئے ہیں کہ ملک میں غذائی بحران پیدا نہ ہو۔
’واشنگٹن میں عمارت فروخت کرنے کی منظوری‘
انہوں نے کہا کہ واشنگٹن کے اندر ایک عمارت سفارت خانے کے زیر استعمال تھی جو سفارت خانہ تو نہیں تھا مگر سرمایہ کاری کی تھی، وہاں دو عمارتیں ایک آر 220 اسٹریٹ پر اور ایک میساچیوسٹس ایونیو پر ہے اور 2010 میں اس وقت کے وزیراعظم کی ہدایت پر ان دونوں عمارت کی بحالی کی کابینہ سے منظوری دی گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ریکارڈ کے مطابق اب تک ان عمارتوں کا 60 فیصد بحالی کا کام بھی مکمل نہیں ہوسکا بلکہ میساچیوسٹس ایونیو پر واقع دوسری عمارت کا کام مکمل ہوگیا ہے اور سفارت خانہ بزنس پلان پر منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکی حکومت نے 2018 میں اس عمارت کی سفارتی حیثیت ختم کردی تھی اور اب نجی عمارت کی حیثیت سے موجود ہے اور حکومت پاکستان 8 لاکھ 19 ہزار ٹیکس بھی ادا کرچکی ہے کیونکہ بروقت فیصلے نہیں ہوسکے۔
وزیر اطلاعات نے کہا کہ 2020 میں ایک بین الوزارتی کمیٹی بنائی گئی تھی، جس نے موجودہ حالت میں اس عمارت کی قیمت 45 لاکھ ڈالر لگائی تھی اور اسی دوران امریکا کے ٹیکس ڈپارٹمنٹ نے کہا تھا کہ اس عمارت کو آپ نہ بیچیں گے اور نہ استعمال ہو رہی ہے، اس پر جو ٹیکس دے رہے ہیں تو قانون کے مطابق اس کی نیلامی کرنی پڑے گی۔
انہوں نے کہا کہ 2020 میں اس پر دوبارہ بحث شروع ہوئی اور اس پر پاکستان سے 13 لاکھ ڈالر ٹیکس وصول کرنے کو کہا گیا کہ اگر آپ نے فروخت یا نیلامی نہیں کی تو یہ ٹیکس دینا پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے کہا گیا کہ اگر آپ نیلام نہیں کریں گے تو پھر امریکا کی حکومت نیلام کردے گی۔
نیلامی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پہلے اس پر 45 لاکھ نیلامی کی بولی آئی تھی اور اب 68 لاکھ ڈالر آئی ہے، جو پہلے کے مقابلے میں 23 لاکھ کا فرق ہے۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ امریکا میں موجود ان عمارتوں کے حوالے سے کابینہ میں فیصلہ ہوا ہے کہ جو شفاف طریقہ اپنایا گیا ہے اور اس کی سمری وزارت خارجہ نے پیش کی تھی اور شفاف طریقے سے بیچنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔
’قائداعظم یونیورسٹی-بارہ کہو تنازع‘
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں قائداعظم یونیورسٹی اور بارہ کہو کے درمیان تنازع کھڑا ہوا ہے اور اس حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست میں زیر سماعت ہے اور عدالت کے حکم کی روشنی میں وزیراعظم نے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی ہے، خوش آئند بات یہ ہے کہ بنیادی مطالبات اور قائد اعظم یونیورسٹی کے اسی طرح کے نئے مطالبات تھے اس پر دونوں فریقین کا اتفاق رائے ہے۔
’فیفا ورلڈ کپ نشریات پر پی ٹی وی اسپورٹس سے کھلواڑ ہوا‘
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ فیفا ورلڈ کپ کی نشریات کے حوالے سے پی ٹی وی اسپورٹس کے ساتھ بڑا کھلواڑ ہوا ہے اور اس پر انکوائری مکمل ہوچکی ہیں اور وجوہات بھی پتا چل چکی ہے لیکن ہم حقوق کے لیے اب بھی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ حقوق ایک سال پہلے حاصل کیے جاتے ہیں اور تمام ملکوں کے قومی نشریاتی ادارے نیلامی کا عمل مکمل کرکے بولی کے ساتھ پورے کرتے ہیں۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ ہم کوشش کر رہے ہیں حقوق واپس ملیں اور جیسے ہی یہ کام ہوجاتا ہے تو پریس کانفرنس کے ذریعے تمام حقائق سے آگاہ کردیا جائے گا۔
’امریکا میں لابی کرکے آزادی حاصل نہیں کی جاتی‘
وفاقی وزیر نے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے ٹوئٹس سے متعلق ایک اور سوال پر کہا کہ بداعتمادی عمران خان کے ذہن میں ہے کیونکہ وہ کرسی اور اقتدار کے ساتھ چمٹے رہنا چاہتے ہیں، جس کے لیے افواج پاکستان کے افسران اور شہدا کے خلاف مہم چلائیں اور افواج پاکستان اور چیف آف آرمی اسٹاف کو سیاست کے اندر مداخلت کرنے کے لیے باقاعدہ دعوت دیں۔
انہوں نے کہا کہ کیا قائد اعظم کا یہ بھی فرمان تھا کہ چیف آف آرمی اسٹاف کو کمرے میں بند کرکے تاحیات توسیع کی پیش کش کریں، کیا قائد اعظم کا یہ فرمان تھا کہ 3 قیراط کی نہیں بلکہ 5 قیراط کی انگوٹھی لینی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کیا قائد اعظم کا یہ فرمان تھا کہ چیئرمین نیب کو بلیک میل کرکے سیاسی مخالفین کو موت کی چکی میں ڈالیں اور ان کے خلاف جھوٹے کیسز بنائیں، کیا اپنے اقتدار اور سیاست بچانے کے لیے اسلامی ٹچ دینے کا فرمان تھا۔
سابق وزیراعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ حقیقی آزادی کا جنازہ پاکستان کے عوام جانتے ہیں، امریکا میں لابی فرم کی خدمات حاصل کرکے حقیقی آزادی نہیں لے سکتے اور اب امریکا کا نام نہیں لیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اب یہ ملک میں افراتفری چاہتے ہیں لیکن ہمارا مقصد اس وقت سیلاب متاثرین کی بحالی کا مرحلہ شروع ہوچکا ہے اور معاشی تباہی ٹھیک کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ڈرامے چھوڑیں اور عوام کو اپنے 4 سال کا جواب دیں۔