واسع چوہدری نے ایوارڈ شو میں پبلک ووٹنگ کو ’احمقانہ تصور‘ قرار دے دیا
اگر آپ سوچتے ہیں کہ آرٹسٹ کے لیے کسی ایونٹ میں شائقین کی ووٹنگ ایوارڈ حاصل کرنے کی اہم وجہ ہے، تو اس حوالے سے اداکار اور پنجاب فلم سینسر بورڈ میں منتخب ہونے والے وائس چیئرمین واسع چوہدری نے کہا ہے کہ دراصل یہ اس طرح نہیں ہوتا۔
ڈائریکٹر رافع راشدی کے ساتھ انٹرویو میں واسع چوہدری سے پاکستانی ایوارڈ شو میں جیوری کے نظام سے متعلق سوال پوچھا گیا کہ کس طرح بڑی ایوارڈ تقریب میں نیوٹرل رویہ رکھا جاسکتا ہے، جس پر ’لندن نہیں جاؤں گی‘ کے اداکار نے بتایا کہ مجھے متعدد بار نامزد کیا گیا ہے، اور پانچ برس قبل میں 2 سال جیوری کا حصہ بھی رہا ہوں، یہ سوشل میڈیا سے پہلے کا وقت تھا، میں اس بارے میں بڑا واضح ہوں کہ عوام کی ووٹنگ جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی، یہ بہت بڑا بلیک ہول ہے جس میں آپ کود سکتے ہیں، پبلک ووٹنگ جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی کیونکہ صرف جیوری فیصلہ کرسکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پبلک ووٹنگ یا پولنگ سیشن پاکستان کی ایجاد ہے، یہ فضول ہے، آسکر ایوارڈز کو دیکھیں، اگر لیونارڈو ڈی کیپریو نامزد ہوتا ہے تو وہ کئی برس پہلے ہی ایوارڈ حاصل کر چکا ہوتا کیونکہ ان سے بڑا فین کلب کسی اور کا نہیں ہے لیکن انہوں نے صرف ایک ایوارڈ جیتا ہے۔
واسع چوہدری نے کہا کہ ٹام کروز ہر آسکر میں ایوارڈ جیتتا کیونکہ ان کے پاس بہت بڑا فین کلب ہے، لہٰذا آن لائن ووٹنگ جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی۔
انہوں نے اسے ’احمقانہ تصور‘ قرار دیتے ہوئے وضاحت کی کہ آن لائن ووٹنگ ان ستاروں کے لیے ہوتی ہے جن کے مداح ایوارڈ جیتنے میں مدد دیتے ہیں، مداحوں کی طاقت آرٹسٹ کے پروجیکٹ کی قدر کو بڑھانے کے لیے بڑی محدود ہوتی ہے، اسی طرح جیسے وہ سینما میں فلم دیکھنے جاتے ہیں اور فلمی ریکارڈ بریک کرنے میں مدد دیتے ہیں، یہاں پر مداحوں کی طاقت ختم ہو جاتی ہے اور اب جیوری کا کام ہے کہ کارکردگی کی بنیاد پر کسی کو ایوارڈ سے نوازے۔
ان کا کہنا تھا کہ سینئرز ان کی مہارت کو جانچتے ہیں، چاہے وہ اداکار، مصنف، ڈائریکٹر اور موسیقار ہوں، یہاں پر مداح تصویر سے ہٹ جاتے ہیں، چاہے وہ ایک یا دو مداح ہوں یا پھر فواد خان کے 2 کروڑ مداح ہوں۔
واسع چوہدری نے مزید کہا کہ اب ہماری مہارت کو ترجیح دی جائے گی، اور جیوری فیصلہ کرے گی کہ کون سا اداکار، ہدایت کار یا مصنف جیتتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تصور لکس اسٹائل ایوارڈز (ایل ایس اے) سے آیا ہے لیکن اس سے بھی قبل یہ بھارت سے آیا جہاں 1996 میں شاہ رخ خان کو بہت سارے ایوارڈز دیے گئے۔
اداکار نے کہا کہ لیکن اسی دوران منوج باجپائی نے اپنی سطح پر بہترین کام کیا، یہیں سے انہوں نے سمجھا کہ باجپائی اداکاری کر سکتے ہیں اور تنقیدی ایوارڈز، بہترین اداکار نقاد اور بہترین اداکار مقبول ہوئے، اس طریقے سے انہوں نے مقبولیت کے عنصر کے ساتھ ساتھ اداکار کے اعزاز کو بھی برقرار رکھا۔