عالمی اداروں کا سعودی عرب سے سزائے موت ختم کرنے کا مطالبہ
سعودی عرب میں منشیات سے متعلق جرائم میں پھانسی کی سزا دینے کے خلاف اقوام متحدہ اور انسانی حقوق تنظیموں نے سعودی حکام سے موت کی سزا ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سعودی حکومت کی طرف سے منشیات کے جرائم میں موت کی سزا دینے کا فیصلہ کرنے پر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے انتہائی افسوسناک قدم قرار دیا ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اکثریتی ممالک کی طرف سے دنیا بھر میں سزائے موت کو روکنے کے مطالبے کے چند دن بعد ہی منشیات اور دیگر الزامات پر پھانسی کی سزا دوبارہ شروع ہوئی ہے۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے ترجمان نے کہا کہ منشیات جیسے جرائم پر موت کی سزا دینا بین الاقوامی اصولوں اور معیارات سے مطابقت نہیں رکھتا۔
رپورٹ کے مطابق 10 نومبر سے اب تک 17 ملزمان کو منشیات کے مقدمات میں پھانسی کی سزا دی گئی ہے جن میں 3 پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔
تینوں پاکستانیوں میں ہیروئن اسمگل کرنے کے جرم میں گرفتار کیے گئے گلزار خان نامی شخص کو آخر میں پھانسی دی گئی جس کی اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے 22 نومبر کو تصدیق کی۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی ترجمان الزبتھ تھروسل نے کہا کہ سعودی عرب میں ہر روز پھانسی کی سزائیں دی جاتی ہیں جہاں رواں ماہ سے سعودی حکام نے منشیات سے متعلق جرائم پر سزائے موت کی 21 ماہ کی غیر سرکاری پابندی ختم کی ہے۔
جن ملزمان کو پھانسی دی گئی ہے ان میں 4 شامی شہری، تین جورڈن کے رہائشی، 7 سعودی عرب کے شہری جبکہ 3 پاکستانی شہری شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر نے اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ اس وقت کتنے ملزمان سزائے موت کی فہرست میں شمار ہیں۔
تاہم پاکستان نے سزائے موت پر کبھی احتجاج نہیں کیا جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سزائے موت پر سخت ردعمل دیتے ہوئے ایسے قدم کو ’ زندگی کے حق پر حملہ’ قرار دیا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ جب سے سعودی عرب کے انسانی حقوق کمیشن نے جنوری 2021 میں منشیات سے متعلق جرائم کے لیے سزائے موت کے استعمال پر پابندی کا اعلان کیا ہے اس کے بعد پاکستانی شہریوں کو منشیات سے متعلق جرائم میں پھانسی دینے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔
مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے لیے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی وقتی ڈپٹی ڈائریکٹر دیانا سیمان نے کہا کہ ’ملک میں سزائے موت کے بڑھتے ہوئے واقعات اس بات کا اعتراف ہے کہ سعودی حکام دنیا کو دکھانے کے لیے نام نہاد ترقی پسند اصلاحات کے ایجنڈے کے پیچھے اصلی چہرہ چھپا رہے ہیں۔‘