آرٹیکل 14 صرف طاقتور لوگوں کے تحفظ کیلئے ہے؟ عمران خان کا سپریم کورٹ سے سوال
سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے سینیٹر اعظم سواتی کی گرفتاری پر اظہار مذمت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے ججز سے سوال کیا ہے کہ ہمارے آئین کے آرٹیکل 14 میں ’انسانی وقار کو تحفظ‘ دیا گیا ہے تو کیا آئین کی یہ شق صرف ریاست کے طاقتور لوگوں کے تحفظ کے لیے ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز ایف آئی اے نے سینیٹر اعظم سواتی کو فوجی افسران کے خلاف متنازع ٹوئٹ کرنے پر گرفتار کرکے مقامی عدالت میں پیش کیا اور ان کے 8 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی جس پرعدالت نے 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا، اپنی گرفتاری کے خلاف آج انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
آج ایک بار پھر اعظم سواتی کی گرفتاری پر اظہار افسوس اور مذمت کرتے ہوئے ٹوئٹر پر جاری اپنے ایک بیان میں عمران خان نےکہا کہ ہمارے آئین کے آرٹیکل 14 میں ’انسانی وقار کو تحفظ‘ دیا گیا ہے تو میرا سپریم کورٹ کے معزز ججوں سے سوال ہے کہ کیا آئین کی یہ شق صرف ریاست کے طاقتور لوگوں کے تحفظ کے لیے ہے، اس میں باقی لوگوں کی انسانی عزت کا کوئی تحفظ نہیں ہے؟
عمران خاں نے کہا کہ سینیٹر اعظم سواتی کو برہنہ کیا گیا، ان پر تشدد کیا گیا، ان کی اہلیہ کو ایک غیر قانونی ویڈیو بھیج کر ان کی تذلیل کی گئی۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ اعظم سواتی گزشتہ کئی ہفتوں سے سپریم کورٹ سے انصاف کی درخواست کر رہے تھے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا، اس پر جب انہوں نے قابل فہم غصے اور مایوسی میں ردعمل دیا تو انہیں پھر جیل میں ڈال دیا گیا اور ان کے خلاف پورے پاکستان میں 15 ایف آئی آرز کاٹ دی گئیں۔
انہوں کہا کہ میں ایک بار پھر اپنے معزز جج صاحبان سے پوچھتا ہوں کہ اس سب معاملے میں انصاف کہاں ہے؟ کیا آئین کا آرٹیکل 14 صرف اعلیٰ اور طاقتور ریاستی عہدیداروں کے لیے اپنی مرضی اور پسند کے مطابق لاگو کیا جائے گا؟
اعظم سواتی کا گرفتاری کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع
قبل ازیں پاک فوج کے افسران کے خلاف متنازع ٹوئٹ کرنے پر گرفتار سابق وفاقی وزیر اور پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی نے مقدمات کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا۔
اعظم سواتی کی جانب سے اپنے وکیل کے توسط سے دائر درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ ایف آئی اے نے پیکا قوانین کے تحت مقدمہ درج کیا، اسی نوعیت کے دوسرے کیس میں اعظم سواتی ضمانت پر رہا ہوئے، پہلے بھی دوران حراست بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ اعظم سواتی کے پاس اطلاعات ہیں کہ دوران حراست انہیں قتل کیا جاسکتا ہے، اعظم سواتی کے ساتھ کسی بھی قسم کا غیر انسانی سلوک کیا جاسکتا ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ جب عدالت میں پیش کیا گیا تو معلوم ہوا کوئٹہ میں مقدمہ درج کیا گیا ہے، سندھ کے مختلف تھانوں میں بھی مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
اعظم سواتی کی درخواست میں عدالت عالیہ سے استدعا کی گئی ہے کہ اعظم سواتی کے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات طلب کی جائیں، بنیادی انسانی حقوق کو یقینی بنایا جائے، اعظم سواتی کی کسی دوسری جگہ منتقلی کو روکا جائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں وفاق، ایف آئی اے، آئی جی سندھ اور بلوچستان کو فریق بنایا گیا ہے۔
خیال رہے کہ اسلام آباد سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر (سی سی آر سی) کے ٹیکنیکل اسسٹنٹ انیس الرحمٰن کی مدعیت میں ریاست کی شکایت پر ایف آئی اے کی جانب سے اعظم سواتی کے خلاف فرسٹ انفارمیشن (ایف آئی آر) رپورٹ درج کی گئی تھی جس میں پیکا 2016 کی دفعہ 20 اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ131، 500، 501، 505 اور 109 شامل کی گئی تھیں۔
ایف آئی آر میں تین ٹوئٹر اکاؤنٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ اعظم سواتی اور مذکورہ اکاؤنٹس نے غلط عزائم اور مذموم مقاصد کے ساتھ ریاستی اداروں، سینئر افسران سمیت جنرل قمر جاوید باجواہ کے خلاف انتہائی جارحانہ انداز میں ٹوئٹر پر مہم کا آغاز کیا، اس طرح نام لے کر اور الزام عائد کرنے والی اشتعال انگیز ٹوئٹس ریاست کو نقصان پہنچانے کے لیے مسلح افواج کے افسران کے درمیان تفریق پیدا کرکے بغاوت کی شرارت ہے۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ اشتعال انگیز ٹوئٹس پر تبصرے کرکے ملزمان نے فوجی افسران کو ان کی ذمہ داریوں اور وفاداری سے بہکانے کی کوشش کی اور اعظم سواتی کی طرف سے یہ بار بار کوشش کی جارہی تھی۔
خیال رہے کہ اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم خان سواتی کو 12 اور 13 اکتوبر کی درمیانی شب گرفتار کیا گیا تھا۔
سابق وفاقی وزیر کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف ٹوئٹ کرنے پر وفاقی تحقیقاتی ادارے کے سائبر کرائم سیل نے گرفتار کیا تھا۔
ایف آئی اے کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے کے مطابق ’پی ٹی آئی کے سینیٹر کو آرمی چیف سمیت ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز اور دھمکی آمیز ٹوئٹ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔‘
16 اکتوبر کو بھی انہیں اسلام آباد ڈسٹرکٹ سیشن کورٹ کے ڈیوٹی مجسٹریٹ شعیب اختر کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں ان کا دوسری بار ایک روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا گیا تھا، جب کہ اس سے قبل بھی عدالت نے ان کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا۔
بعد ازاں اسلام آباد کی اسپیشل جج سینٹرل کی عدالت نے 10 لاکھ کے ضمانتی مچلکوں کے عوض اعظم خان سواتی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں پاسپورٹ جمع کرانی کی ہدایت کی تھی۔