شرح سود میں اضافے کے بعد حکومت کو قرضے کی بھاری قیمت دینی پڑے گی
شرح سود میں اضافہ کرنے کا فیصلہ حکومت کو مہنگا پڑے گا کیونکہ اسے اگلے تین ماہ میں ٹریژری بلز اور پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز کی 50 کھرب روپے کی میچورٹی نئی شرح کے ساتھ دوبارہ مقرر کرکے ادا کرنی ہوگی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مہنگائی پر قابو پانے کے لیے شرح سود میں 100 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کردیا تھا جس کے بعد شرح سود 16 فیصد پر پہنچ گئی، مگر زیادہ شرح سود کے دیگر رجحانات پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا۔
شرح سود میں بلند اضافے کی وجہ سے تجارت اور صنعت پہلے ہی مسائل کا شکار ہے اور اس اقدام کو مسترد کرتے ہوئے کاروباری لاگت بڑھانے کے کوشش قرار دیا ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ کاروبار کرنے کے لیے لاگت بڑھانے کے کوشش معیشت میں رکاوٹ پیدا کرے گی۔
ادھر حکومت نے تخمینہ لگایا ہے کہ مالی سال 2023 میں معیشت 2 فیصد کے قریب بڑھ سکتی ہے جو کہ مالی سال 2022 میں تقریباً 6 فیصد تھی۔
معیشت سکڑنے کے رجحانات بہت ہیں، ان کا بنیادی سبب ڈالر بچانے کے لیے درآمدات کم کرنے کی کوششیں اور طلب کم کرنے کے لیے شرح سود میں اضافہ کرنا شامل ہیں۔
بیک وقت مہنگائی کے شدید دباؤ نے مقامی سرمایہ کاری کی امیدوں کو بھی بہا دیا ہے جہاں قرض لینے کی لاگت متوقع حدوں سے بڑھ گئی ہے۔
حالیہ اضافہ اسٹیٹ بینک کے پالیسی ریٹ کو 24 سال کی بلند ترین سطح پر لے گیا ہے جو کہ سال 1998 کے 16.5 فیصد سے معمولی کم ہے۔
اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق حکومت 2 نومبر سے 25 جنوری تک 49 کھرب روپے جمع کرے گی تاکہ 47 کھرب 65 ارب روپے کے ٹریژری بلز اور 360 ارب روپے کے پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز کی رقم ادا کی جائے، اس بڑی رقم کی قیمت 16 فیصد کی بڑھی ہوئی شرح سود کے مطابق ٹی بلز اورپاکستان انویسٹمنٹ بانڈز پر منافع کی نئی شرح کے ساتھ دوبارہ مقرر کی جائے گی، سرکاری کاغذات پر آخری تاریخ تک شرح منافع کو عمومی طور پر بینچ مارک شرح سود کے برابر یا تھوڑا زیادہ مقرر کیا جاتا ہے۔
مارکیٹ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ شرح سود میں اضافہ تجارت اور صنعت کے لیے تباہ کن ہے، بینک اپنی لیکویڈیٹی محفوظ سرکاری ٹریژری میں رکھ کر زیادہ منافع حاصل کریں گے۔
موجودہ صورتحال میں ناقابل برداشت بلند قیمت کی وجہ سے نجی شعبے کے قرضے مزید کم ہوجائیں گے جبکہ کمزور معاشی ترقی اور درآمدی ڈیوٹی میں کمی کہ وجہ سے حکومت کے پاس لیکویڈیٹی بھی کم ہے۔
لینڈ مارک انویسٹمنٹ کے سی سی او فیصل مامسا نے کہا کہ پالیسی ریٹ میں 100 بیسس پوائنٹس کا اضافہ حالات کے خلاف ہے اور ہمارے اعداد و شمار نے تجویز کیا ہے کہ شرح سود میں اضافے کا امکان یقینی طور اس وقت حالات کے مطابق نہیں کہ جب 50 کھرب روپے سے زیادہ مالیت کے ٹی بلز اور پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز کی میچورٹی کے لیے اتنی بڑی رقم ادا کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ شرح سود میں اضافہ حکومت کو اب مزید مالی مسائل سے دوچار کرے گا۔
گزشتہ مانیٹری پالیسی بیان کو سامنے رکھتے ہوئے تجریہ کاروں نے دیگر تمام چیزوں پر صرف مہنگائی کو ترجیح دینے پر سوالات اٹھائے اور کہا کہ شرح میں اضافے سے مہنگائی پر قابو پانے میں کیسے مدد ملے گی؟
تاہم کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ شرح سود میں یہ اضافہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی وجہ سے کیا گیا ہے اور اگر ایسا ہے تو گزشتہ 6 ہفتوں سے روپے کی مسلسل گراوٹ یعنی 216 سے 224 تک پہنچنے میں بھی اس کا رجحان شامل ہے۔
خیال رہے کہ حکومت پہلی سہ ماہی کے مالیاتی خسارے کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے جس کی وجہ سے ریونیو بڑھانے کے لیے آئی ایم ایف کا دباؤ ہے۔
اس صورتحال میں حکومت کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ ٹیکس بڑھائے جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ مالیاتی سال 2023 میں مالیاتی خسارے کے لیے آئی ایم ایف کی دی گئی حد میں رہنے کے لیے اضافی 8 ارب روپے درکار ہیں۔
یاد رہے کہ 25 نومبر کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود میں 100 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کر دیا تھا جس کے بعد شرح سود 16 فیصد پر پہنچ گئی۔
یہ اعلان مرکزی بینک کی زری پالیسی کمیٹی کے اجلاس کے بعد کیا گیا تھا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا تھا کہ مہنگائی کا دباؤ توقع سے زیادہ اور مسلسل ثابت ہوا ہے، شرح سود بڑھانے کے فیصلے کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ مہنگائی پائیدار نہ ہوجائے، مالی استحکام کو درپیش خطرات قابو میں رہیں اور اس طرح زیادہ پائیدار بنیاد پر بلند نمو کی راہ ہموار کی جاسکے۔
واضح رہے کہ اسٹیٹ بینک نے جولائی میں شرح سود میں مزید 125 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کرتے ہوئے 13.75 سے بڑھا کر 15 فیصد کردی تھی، جس کے بعد مرکزی بینک نے شرح سود کو برقرار رکھا تھا۔