اسٹیٹ بینک نے گوگل کو ادائیگیاں روکنے کی خبروں کی تردید کردی
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے انٹرنیٹ کی سب سے بڑی کمپنی گوگل کو ادائیگیاں روکنے کی تردید کرتے ہوئے انہیں بے بنیاد اور گمراہ کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بین الاقوامی خریداری کے معاملے میں بعض خدمات میں تبدیلی کی گئی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک کی جانب سے کہا گیا کہ ذرائع ابلاغ کے بعض حصوں میں گوگل کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے ادائیگیاں روکنے کی خبریں بے بنیاد اور گمراہ کن ہیں، اسٹیٹ بینک ایسے تمام دعووں کی سختی سے تردید کرتا ہے۔
ٹیلی کام انڈسٹری اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کا کہنا ہے کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے، حکومت ڈالر کے اخراج کو محدود کرنا چاہتی ہے جس کی وجہ سے غیر اعلانیہ پابندیاں عائد کی گئیں۔
ترجمان نے کہا کہ اسٹیٹ بینک ایسے تمام دعووں کی سختی سے تردید کرتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ ملک کے اداروں کو سہولت فراہم کرنے کی غرض سے اسٹیٹ بینک نے انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) سے متعلق بعض خدمات کی تخصیص کی جو ایسے ادارے اپنے استعمال کے لیے بیرون ملک سے خرید سکتے ہیں اور وہاں ایک لاکھ امریکی ڈالر فی انوائس تک زرمبادلہ میں ادائیگیاں کرسکتی ہیں۔
ان خدمات میں سیٹلائٹ ٹرانسپونڈر، انٹرنیشنل بینڈ وتھ، انٹرنیٹ، پرائیویٹ لائن سروسز، سافٹ ویئر لائسنس، مینٹیننس اینڈ سپورٹ، اور الیکٹرانک میڈیا اور ڈیٹا بیسز استعمال کرنے کی سہولت شامل ہیں۔
اس آپشن کو استعمال کرنے کے خواہاں ادارے ایک بینک کا تعین کرتے ہیں جس کی اسٹیٹ بینک ایک بار منظوری دیتا ہے اور بعد میں یہ ادائیگیاں متعین بینک کے ذریعے مزید کسی ضابطے کی منظوری کے بغیر کی جاسکتی ہیں۔
اسٹیٹ بینک کے بیان کے مطابق حالیہ آف سائٹ جائزوں کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ٹیلی کام کمپنیاں اپنی آئی ٹی خدمات سے متعلق سروسز کے لیے رقوم منتقل کرنے کے علاوہ ڈائریکٹ کیریئر بلنگ (ڈی سی بی) کے تحت ائیر ٹائم استعمال کرکے صارفین کی جانب سے خریدے گئے ویڈیو گیمنگ، اور تفریحی مواد وغیرہ کے لیے بھی زیادہ رقوم منتقل کر رہی ہیں۔
ڈائریکٹ کیرئر بلنگ موبائل کے ذریعے آن لائن رقم کی ادائیگی کا طریقہ کار ہے جس کے ذریعے صارفین کریڈٹ کارڈ یا ڈیبٹ کارڈ کے بجائے اپنے موبائل فون میں آن لائن ادائیگی کرکے خریداری کرسکتے ہیں۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ ٹیلی کام کمپنیاں اپنے صارفین کو مذکورہ بالا مصنوعات ایئر ٹائم کے ذریعے خریدنے کی اجازت دیتا ہے اور پھر ان ٹرانزیکشن کو آئی ٹی خدمات کی خریداری کی۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ ٹیلی کام کمپنیاں اپنے صارفین کو براہ راست ائیر ٹائم فروخت کرکے بعد ازاں ان ادائیگیوں کو آئی ٹی خدمات کی مد میں ظاہر کرکے بیرون ملک منتقل کر رہی تھیں۔
بیان میں مزید بتایا گیا کہ کمپنیاں اپنے سبسکرائبرز کی جانب خدمات کی خریداری میں سہولت دے کر بطور ثالث پیمنٹ ایگرگیٹرز کے طورپر کام کر رہی تھی، اس لیے زرمبادلہ کے ضوابط کی خلاف ورزی میں سہولت فراہم کرنے کے لیے انہیں بینکوں کے توسط سے ہدایت کی گئی کہ وہ اپنی درخواستیں دوبارہ دائر کریں۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ آئی ٹی سے متعلق ادائیگیوں کو آسان بنانے کے لیے ٹیلی کام کمپنیوں نے بینکوں کو ہدایت کی کہ وہ اپنی درخواستیں دوبارہ دائر کریں
بیان میں مزید کہا گیا کہ ان کمپنیوں سمیت اگر کوئی ادارہ ثالث یا پیمنٹ ایگرگیٹر کے طور پر کام کرنا چاہتا ہے اور اس بندوبست میں زرمبادلہ کا بیرون ملک جانا شامل ہے تو اسے زرمبادلہ ضوابط ایکٹ 1947 کے تحت خدمات کی فراہمی کے حصول کے لیے اپنے بینک کے توسط سے علیحدہ سے اسٹیٹ بینک سے رجوع کرنا ہوگا۔
اسٹیٹ بینک اور وزارت آئی ٹی کے درمیان تنازع
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا بیان اس وقت سامنے آیا جب یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ اسٹیٹ بینک نے غیر ملکی خدمات فراہم کرنے والوں کو 34 لاکھ ڈالر کی ادائیگی منسوخ کردی تھی جس کے بعد شعبہ آئی ٹی اور اسٹیٹ بینک کے درمیان تنازع پیدا ہوا۔
چونکہ پاکستانی صارفین خدمات حاصل کرنے کے لیے موبائل فون کے ذریعے براہ راست ادائیگیاں نہیں کرسکیں گے، صنعت نے وزارت انفارمین ٹیکنالوجی سے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
بعض رپورٹس کے مطابق پاکستان میں یکم دسمبر 2022 سے موبائل فونز کے ذریعے پیڈ گوگل ایپلی کیشنز اور دیگر سروسز ڈاؤن لوڈ کرنے کی سہولت دستیاب نہیں ہوگی، تاہم مفت گوگل ایپلی کیشنز اور دیگر فری سروسز دستیاب ہوں گی۔
وزارت آئی ٹی اور ٹیلی کام سید امین الحق نے اس حوالے سے اسحٰق ڈار نے فون پر بات کی اور خط بھی لکھا، خط میں امین الحق نے وزیر خزانہ سے اس معاملے پر فوری نوٹس لینے کا کہا اور اسٹیٹ بینک کو موجودہ ادائیگی کے طریقہ کار کو جاری رکھنے کی ہدایت کرنے کا کہا تھا۔
اسٹیٹ بینک کے جاری اعلامیے سے قبل ٹیلی کام کمپنی کے سینئر عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ پاکستانی صارفین اب صرف کریڈٹ کارڈ یا ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے ادائیگی کرنے کے لیے گوگل اور دیگر بین الاقوامی ایپس ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔
شعبہ آئی ٹی میں دیگر اسٹیک ہولڈرز کا کہنا تھا کہ بینک کے ذریعے رقم کی ادائیگی انتہائی مشکل عمل ہے، انہوں نے اسٹیٹ بینک اور ایف بی آر پر بھی تنقید کی۔
پاکستان سافٹ ویئر ہاؤس ایسوسی ایشن کے سربراہ زوہیب خان نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک نے غیر اعلانیہ پابندیاں عائد کی تھیں، انہوں نے الزام لگایا کہ اسٹیٹ بینک، ایف بی آر کی طرح اپنے وعدے پورے نہیں کرسکتے۔
اسی دوران پنجاب کے وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈاکٹر ارسلان خالد نے زور دیتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی سروس فراہم کرنے والوں کو سالانہ بنیادوں پر 3 کروڑ 40 لاکھ ڈالرز کی ادائیگی روکنے کے فیصلے پر اسٹیٹ بینک نظر ثانی کرے۔