فیصل واڈا سینیٹ سے مستعفی، غلطی تسلیم کرنے پر تاحیات نااہلی ختم
سپریم کورٹ نے سابق وفاقی وزیر فیصل واڈا کی تاحیات نااہلی ختم کرنے کی درخواست پر سماعت کے دوران ان کی تاحیات نااہلی ختم کرتے ہوئے موجودہ اسمبلی کے لیے نااہل قرار دے دیا۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ نے سابق وفاقی وزیر کو دو آپشن دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنی غلطی تسلیم کریں اور 63 (ون) (سی) کے تحت نااہل ہو جائیں یا بصورت دیگر عدالت 62 (ون) (ایف) کے تحت تاحیات نااہلی کیس میں پیش رفت کرے گی۔
فیصل واڈا نے الیکشن کمیشن کی جانب سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد جنوری میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے نااہلی کے خلاف درخواست مسترد کرنے کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سابق سینیٹر کی درخواست پر سماعت کی۔
آج سماعت کے دوران فیصل واڈا نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے امریکی شہریت چھوڑنے کا غلط بیان حلفی جمع کرانے کا اعتراف کیا، انہوں نے سینیٹ کی نشست سے استعفیٰ دیتے ہوئے سپریم کورٹ سے معاملے پر معافی مانگ لی جس پر عدالت عظمیٰ نے فیصلہ سناتے ہوئے فیصل واڈا کو موجودہ اسمبلی کے لیے نااہل قرار دیا۔
سماعت کے آغاز پر عدالت نے فیصل واڈا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ واضح بیان نہیں دیں گے تو آپ کے خلاف کارروائی کریں گے، اگر غلطی تسلیم کریں گے تو آپ کے خلاف نااہلی کا فیصلہ ختم کردیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے دوہری شہریت ترک کرنے کی درخوست دے رکھی تھی؟ اس پر منظوری نہیں ہوئی تھی، غلطی تسلیم کرتے ہیں تو پانچ سال کے لیے نااہل ہوں گے، نہیں کرتے 62 (ون) (ایف) کے تحت تاحیات نااہلی پر کیس سنیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اعتراف کرتے ہیں تو ممکن ہے 63 (ون) (سی) میں رکھیں، انکار کرتے ہیں تو کیس دوسری طرف جاسکتا ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ سینیٹ الیکشن لڑا تو دوہری شہریت نہیں تھی؟ چیف جسٹس نے کہا کہ شرمندگی کے لیے نہیں بلایا، ہمارا ارادہ نہیں اراکین کو بے توقیر کیا جائے گا، نامزدگی اور ڈیکلریشن کے بارے میں اراکین کو سنجیدہ ہونا ہوگا۔
فیصل واڈا نے کہا کہ رکن قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا تو غلط بیانی ہوئی، چیف جسٹس نے کہا کہ مان جائیں، عدالت کی سوچ سزا دینا نہیں ہے، سینیٹ الیکشن ہو چکا، کالعدم کردیں، سینیٹ سے بھی مستعفی ہونا پڑے گا، اس معاملے پر عدالت نے 10 منٹ مشورہ بھی کیا ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ اچھی نیت کے لیے سینیٹ سے مستعفی ہوں،
چیف جسٹس نے کہا کہ 3 سال تک اپنی غلط بیانی پر ڈٹے رہے۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ فیصل واڈا آرٹیکل 63 (ون) (سی) کے تحت 5 سال کے لیے نااہل ہیں، استعفیٰ دینے کے بعد فیصل واڈا موجودہ اسمبلی کی مدت تک نااہل ہوں گے۔
سپریم کورٹ نے فیصل واڈا کے خلاف الیکشن کمیشن اور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں اپنا استعفیٰ فوری طور پر چیئرمین سینیٹ کو بھیجنے کا حکم دیا۔
اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے فیصل واڈا کی تاحیات نااہلی ختم کرتے ہوئے آئندہ عام انتخابات اور سینیٹ انتحابات کے لیے اہل قرار دیا۔
عمران خان کو کسی کےخلاف بنا ثبوت بات نہیں کرنی چاہیے، فیصل واڈا
سماعت کے بعد سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فیصل واڈا نے کہا کہ عمران خان سے میرا تعلق تھا، ہے اور رہے گا، میں جج کے عہدے پر نہیں ہوں، نواز شریف والے کیس پر بات نہیں کروں گا۔
انہوں نے کہا کہ انسانوں نے بہت طاقت لگائی، االلہ نے جس کو دینا تھا، دے دیا، جلد الیکشن مانگنا میرا حق ہے، اسمبلی مدت پوری کرنا آئینی عمل ہے۔
سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ میری سیاست یہیں تک تھی، میں کسی پارٹی میں نہیں جارہا، میرا تعلق عمران خان سے ختم نہیں ہوا، عمران خان کی سیاست بند گلی میں آگئی، کسی کے کہنے پر نام لینے کا طریقہ کار کا تاثر اچھا نہیں ہے، عمران خان جیسے رہنما چیزوں کی تصدیق کرالیا کریں، ریاستی اداروں کے نام لینا زیادتی ہے، عمران خان جیسے رہنما کو کسی کے خلاف بنا ثبوت کے بات نہیں کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان آدھی رات کو آواز دیں، ہم حاضر ہیں، اللہ کی بڑی مہربانی، اللہ کا بڑا احسان ہے کہ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا، عدالت نے جو الفاظ ادا کیے، میرے لیے بڑی بات ہے، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے ایسے الفاظ میری فتح ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے پورا پورا انصاف ملا ہے، سینیٹ کی نشست عمران خان کی تھی، اس سے ویسے بھی استعفیٰ دینا تھا، سپریم کورٹ نے این آر او ہی نہیں دیا بلکہ کئی لوگوں کو بحال بھی کیا ہے۔
فیصل واڈا نااہلی
یاد رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے فیصل واڈا کے خلاف دہری شہریت پر نااہلی کی درخواستوں پر فیصلہ 23 دسمبر 2021 کو محفوظ کیا تھا۔
محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن نے فیصل واڈا کو آئین کے آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت تاحیات نااہل قرار دیا تھا جبکہ انہیں بطور رکن قومی اسمبلی حاصل کی گئی تنخواہ اور مراعات دو ماہ میں واپس کرنے کا حکم بھی دیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ ای سی پی نے فیصل واڈا کے بطور سینیٹر منتخب ہونے کا نوٹی فکیشن بھی واپس لے لیا تھا، جبکہ ان کی جانب سے بحیثیت رکن قومی اسمبلی، سینیٹ انتخابات میں ڈالے گئے ووٹ کو بھی ’غلط‘ قرار دیا گیا تھا۔
فیصل واڈا پر الزام تھا کہ انہوں نے 2018 کے عام انتخابات میں کراچی سے قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑتے ہوئے اپنی دہری شہریت کو چھپایا تھا۔
فیصل واڈا نااہلی کیس 22 ماہ سے زائد عرصے تک زیر سماعت رہا، مذکورہ کیس پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی کیس پر سماعت ہوئی۔
ان کی دوہری شہریت کے خلاف قادر مندوخیل کی جانب سے 2018 میں درخواست دائر کی گئی تھی۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ جس وقت فیصل واڈا نے قومی اسمبلی کے انتخاب کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے اس وقت وہ دہری شہریت کے حامل اور امریکی شہری تھے۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ فیصل واڈا نے انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے الیکشن کمیشن میں ایک بیانِ حلفی دائر کیا تھا کہ وہ کسی دوسرے ملک کے شہری نہیں ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ چونکہ انہوں نے جھوٹا بیانِ حلفی جمع کرایا تھا اس لیے آئین کی دفعہ 62 (ون) (ایف) کے تحت وہ نااہل ہیں۔
درخواست کی سماعت کے دوران سابق وفاقی وزیر کے وکیل کا کہنا تھا کہ فیصل واڈا نے کوئی جھوٹ نہیں بولا، کاغذات نامزدگی جمع کروانے سے قبل انہوں نے اپنا غیر ملکی پاسپورٹ منسوخ کروا دیا تھا۔
سماعت کے دوران فیصل واڈا کے وکیل بیرسٹر معید نے ان کا پیدائشی سرٹیفکیٹ کمیشن میں جمع کروایا اور بتایا تھا کہ فیصل واڈا امریکی ریاست کیلی فورنیا میں پیدا ہوئے تھے اور پیدائشی طور پر امریکی شہری تھے۔