ریکوڈک ریفرنس: پاکستان کے نظام انصاف میں بہتری ہمارے لیے بڑا چیلنج ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریکوڈک منصوبے سے متعلق ریکوڈک ریفرنس کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ پاکستان کے نظام انصاف میں بہتری ہمارے لیے بڑا چیلنج ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے ریکوڈک منصوبے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی جہاں سرمایہ کار بیرک گولڈ کمپنی کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل مکمل کیے۔
مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ریکوڈک منصوبے سے مال جیسے ہی پورٹ پر پہنچے گا، 85 فیصد ادائیگی ہوجائے گی، منصوبے کے مال کی بقیہ 15 فیصد ادائیگی منزل پر پہنچ کر مارکیٹ ریٹ اور کوالٹی کے مطابق ادائیگی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ اگر ریکوڈک منصوبے سے کاپر اور سونے کے علاوہ کوئی معدنیات نکلی تو اس کا طریقہ کار معاہدے میں درج ہے، اگر ریکوڈک منصوبے سے کوئی نایاب معدنیات نکلیں تو حکومت مارکیٹ ریٹ پر خرید لے گی۔
کمپنی کے وکیل نے بتایا کہ اگر ریکوڈک منصوبے سے کوئی اسٹریٹجک معدنیات برآمد ہوئیں تو حکومت مفت لے سکے گی، اگر زمین حاصل کی گئی تو ادائیگی کمپنی کرے گی جبکہ حکومت سہولت فراہم کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ مرکزی شاہراہوں کی تعمیر اور مرمت حکومت جبکہ نوکنڈی سے پروجیکٹ تک سڑک کی تعمیر کمپنی کے ذمے ہوگی، شاہراہیں صرف پروجیکٹ نہیں بلکہ عام عوام بھی استعمال کرسکیں گے۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ سرحد، صوبے اور ضلع میں سیکیورٹی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہوگی جبکہ پروجیکٹ کے اندر سیکیورٹی کمپنی کے ذمے ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ ریکوڈک منصوبے سے مال کرش کرکے پانی کی لائن کے ذریعے پورٹ پر پہنچے گا، ریکوڈک منصوبے کی تعمیر کا ایک فیصد جبکہ سالانہ آمدن کا 0.4 فیصد سماجی شراکت داری پر خرچ ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ریکوڈک منصوبے کی تعمیر پر 7 ہزار 500 جبکہ آپریشنز پر 4 ہزار نوکریاں ملیں گی۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ کمپنی ریکوڈک منصوبے کو مکمل شفاف اور قانون کے مطابق کرنا چاہتی ہے، اگر حکومت کوئی رعایت ختم کرتی ہے تو وہ خفیہ نہیں بلکہ پبلک نوٹس کے ذریعے کھلے عام فیصلہ کرے۔
جسٹس منیب اختر نے اس موقع پر کہا کہ ریکوڈک منصوبے میں 50 فیصد حصص پاکستان کے ہیں، تنازع سے پاکستان کو بھی اثر پڑے گا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ حکومت پاکستان جو کرے وہ بین الاقوامی قوانین کو مدنظر رکھ کر کرے ورنہ کمپنی پھر عالمی ثالثی فورم پر چلی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عدالتی نظام اور عالمی نظام انصاف میں بہت فرق ہے، پاکستان کے نظام انصاف میں بہتری ہمارے لیے بڑا چیلنج ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بھی پاکستان کے نظام انصاف پر اعتماد کرنا چاہیے، پاکستان کے نظام انصاف میں بہتری کے لیے بہت اقدامات کیے گئے ہیں اور نتائج کچھ وقت کے بعد نظر آئیں گے۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ بیشتر ممالک نے سرمایہ کاروں کے تنازعات ختم کرنے کے لیے وزارت خارجہ میں قانونی مشیر مقرر کر رکھے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ جب تنازعات عالمی فورمز پر پہنچ جائیں تو حل کرنے میں بہت وسائل خرچ ہوتے ہیں۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ ریکوڈک منصوبے پر ساڑھے تین سال ہر سطح کے مذاکرات کے بعد معاہدے پر پہنچے اور اس کے ساتھ بیرک گولڈ کمپنی کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہوگئے۔
ریکوڈک منصوبے پر صدارتی ریفرنس کے سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے اپنے دلائل شروع کیے اور کہا کہ ریفرنس میں دوسرا سوال فارن انویسٹمنٹ بل 2022 کے بنیادی حقوق کے متصادم ہونے سے متعلق ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئینی آرٹیکل 144 کے تحت وفاق کے بنائے گئے قانون میں صوبے ترمیم کر سکتے ہیں، ریکوڈک معاہدے کے لیے قانون سازی کا مقصد بیرون ملک سے بھاری سرمایہ کاری یقینی بنانا ہے۔
جسٹس یحیٰ آفریدی نے کہا کہ حکومت عدالت سے مجوزہ قانون سازی کی توثیق کیوں چاہتی ہے، جس پر عامر رحمٰن نے کہا کہ عدالت بتا دے کہ کیا پارلیمنٹ کے پاس فارن انویسٹمنٹ کے تحفظ کی قانون سازی کا اختیار ہے یا نہیں، فارن انویسٹمنٹ بل 2022 مستقبل کی تمام تر سرمایہ کاری پر لاگو ہوگا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت نے معاشی تحفظ بل 1992 بھی منظور کیا تھا جو عدالتوں میں چیلنج نہیں ہوا، حکومت اپنے خدشات دور کرنے کے لیے عدالت کیوں آئی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ موجودہ قانون کے تحت کیوں ریکوڈک منصوبے میں چھوٹ نہیں دی جا سکتی، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پچھلے سال تک پاکستان میں فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ 28 کروڑ ڈالر تھی اور ریکوڈک منصوبے سے ملک میں اربوں کی فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ آرہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تمام فارن کوالیفائڈ سرمایہ کاری قانون سازی کے ذریعے ون ونڈو آپریشن میں لا رہے ہیں، تاہم چیف جسٹس نے ان سے سوال کیا کہ سرمایہ کاری سے جڑے تنازعات کو عدالتوں میں کیوں لاتے ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سرمایہ کاری سے جڑے تمام تنازعات عدالت سے باہر حل کرنے کا طریقہ کار بنائیں، پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ کاروبار کی دستاویزات نہ ہونا ہے، ملک میں ضروری وسائل کی پیداوار کے بغیر بین الاقوامی قرضوں میں اضافہ ہوا ہے، فیٹف نے بھی پاکستا ن پر شفاف سرمایہ کاری اور ٹرانزیکشنز پر زور دیا تھا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اگر فارن انویسٹمنٹ کی کوئی حد مقرر نہ ہوئی تو مجوزہ قانون سازی سے نیا پنڈورا باکس کھل جائے گا۔
چیف جسٹس نے اس کے ساتھ ہی کیس کی مزید سماعت کل (24 نومبر) تک ملتوی کردی۔
ریفرنس کا پس منظر
یاد رہے کہ کینیڈا کی مائننگ فرم بیرک گولڈ کارپوریشن کو توقع ہے کہ پاکستانی پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ، بلوچستان میں ریکوڈک کاپر اینڈ گولڈ منصوبے میں عالمی ثالثی کے تحت 7 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے راستہ بناتے ہوئے عدالت سے باہر کیے گئے اس کے 6 ارب ڈالر کے تصفیے کی منظوری دے گی۔
21 مارچ 2022 کو پاکستان نے غیر ملکی فرم کے ساتھ عدالت سے باہر معاہدہ کیا تھا، معاہدے کے تحت فرم نے 11 ارب ڈالر کے جرمانہ معاف کرنے اور 2011 سے رکے ہوئے کان کنی کے منصوبے کو بحال کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
19 جولائی 2022 کو وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو اور بیرک گولڈ کارپوریشن نے 14 اگست سے ریکوڈک گولڈ پروجیکٹ پر کام شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔
تاہم 18 اکتوبر کو وزیر اعظم شہباز شریف کی سفارش پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ریکوڈک ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا۔
اس سے قبل 5 اکتوبر کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ریکوڈک منصوبے پر سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دی تھی۔