اسلام آباد انتظامیہ کی پی ٹی آئی کو ریلی نکالنے کی اجازت، این او سی جاری
اسلام آباد انتظامیہ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو ریلی نکالنے کی اجازت دیتے ہوئے این او سی جاری کر دیا۔
گزشتہ روز چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے پی ٹی آئی کی جلسے اور دھرنے کے لیے این او سی کے اجرا پر پی ٹی آئی کے علی نواز اعوان کی درخواست اور مقامی تاجروں کی پی ٹی آئی دھرنے کے باعث راستوں کی بندش کے خلاف درخواست کو یکجا کر کے سماعت کی تھی۔
دوران سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی نے اگر جلسہ کرنا ہے تو انتظامیہ کو نئی درخواست دے، اگر جلسے کی اجازت دیں گے تو یقینی بنائیں گے کہ سڑکیں بلاک نہ ہوں، انتظامیہ نے یقینی بنانا ہے کہ عوام کے حقوق متاثر نہ ہوں۔
بعدازاں پی ٹی آئی کی جانب سے اسلام آباد انتظامیہ کو ریلی کی اجازت کے لیے نیا خط لکھا گیا تھا اور آج اسلام آباد انتظامیہ نے علی نواز اعوان کی درخواست پر پی ٹی آئی کو کورال سے روات تک ریلی کی اجازت دے دی۔
ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اسلام آباد کی جانب سے جاری این او سی کے مطابق پی ٹی آئی کو ریلی نکالنے کے لیے 35 شرائط کی پابندی کرنا ہو گی۔
ضلعی انتظامیہ کی جانب سے جاری این او سی کے مطابق ریلی کی اجازت صرف کورال چوک سے روات تک روٹ کے لئے دی گئی ہے، ریڈ زون اور باقی علاقوں میں دفعہ 144 کا نفاذ رہے گا۔
این او سی مین واضح کیا گیا ہے کہ کوئی بھی سڑک کسی طرح سے بلاک کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، سرکاری اور نجی املاک کو ہرگز نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔
اجازت نامے کے مطابق ریلی کے لئے اسلام آباد کیپیٹل پولیس باقاعدہ ٹریفک پلان جاری کرے گی، ریاست، مذہب، نظریہ پاکستان کے مخالف نعروں اور تقریروں کی اجازت نہیں ہوگی۔
اسلام آباد انتظامیہ نے واضح کیا ہے کہ ریلی میں ہتھیار، اسلحہ اور ڈنڈے وغیرہ لانے پر کارروائی ہوگی، شرائط کی خلاف ورزی پر قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔
آئی جی اسلام آباد پی ٹی آئی احتجاج کو مشروط سکیورٹی دینے کیلئے تیار
دریں اثنا پی ٹی آئی کے لانگ مارچ اور احتجاج کے حوالے سے آئی جی اسلام آباد نے تفصیلی رپورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کروا دی ہے۔
پی ٹی آئی اسلام آباد کی جانب مارچ کر رہی ہے جہاں قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کرنے کے لیے حکام سے احتجاج کی منظوری طلب کی ہے، اسلام آباد کے تاجروں نے اس لانگ مارچ کی وجہ سے سڑکوں کی ممکنہ بندش کے خلاف درخواست دائر کی تھی جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) اسلام آباد ڈاکٹر اکبر ناصر خان سے رپورٹ طلب کی تھی۔
16 نومبر کو آئی جی اسلام آباد کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کروائی گئی تفصیلی رپورٹ میں سابق وزیراعظم عمران خان کو لاحق خطرات سے متعلق تھریٹ الرٹس اور علی امین گنڈاپور سمیت دیگر پی ٹی آئی رہنماوں کے اشتعال انگیز بیانات بھی رپورٹ کا حصہ ہیں۔
آئی جی اسلام آباد نے رپورٹ میں بتایا کہ پی ٹی آئی 25 مئی کو بھی اپنی یقین دہانی کی خلاف ورزی کرچکی ہے، پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے وزیر داخلہ کو جان کی دھمکی بھی دی، ویڈیوز بھی موجود ہیں جن میں کارکنوں کو غلیلیں دی جارہی ہیں جبکہ شیخ رشید اور فیصل واوڈا کہہ چکے ہیں کہ یہ خونی مارچ ہو گا، خود چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان بھی تسلیم کر چکے ہیں کہ ان کے کچھ لوگ مسلح ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ سپریم کورٹ واضح کر چکی کہ اجتماع کی اجازت جمہوری حق کے طور پر دی جاتی ہے، سپریم کورٹ کہہ چکی ہے کہ اجتماع قانونی حکومت کو ختم کرانے کیلئے نہیں ہو سکتا، احتجاج سے ڈپلومیٹک موومنٹ بھی بند ہوتی ہے۔
آئی جی اسلام آباد کی جانب سے رپورٹ میں درخواست کی گئی کہ ائیرپورٹ تک جانے والے راستوں پر وفاقی ایجنسیز کو اختیار دیا جائے، پی ٹی آئی سے مالی ضمانت بھی لی جا سکتی ہے کہ کوئی نقصان نہ ہو، پی ٹی آئی مطلوبہ ضمانت دے دے تو کنٹینرز بھی رکھنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ عدالتی فیصلوں کے مطابق ہی پی ٹی آئی کو احتجاج کی اجازت دی جائے، مطلوبہ شرائط کے مطابق احتجاج ہوا تو سکیورٹی دینے کو تیار ہیں۔