داسو بس حملے کا فیصلہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے پختہ عزم کا اعادہ ہے، دفتر خارجہ
دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ داسو بس پر حملے کے کیس کا فیصلہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے پختہ عزم کو ظاہر کرتا ہے۔
ہزارہ میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے حملے کی منصوبہ بندی کرنے پر دو ملزمان کو سزائے موت کا فیصلہ سنانے کے دو روز کے بعد دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ کا یہ بیان آیا ہے۔
سوات کی تحصیل مٹا سے تعلق رکھنے والے محمد حسین اور محمد ایاز پر بس پر حملے کرنے کی منصوبہ بندی کا الزام تھا، جس میں 14 جولائی 2021 کو 9 چینی مزدور سمیت 13 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ہفتہ وار پریس بریفنگ میں سوال کا جواب دیتے ہوئے ممتاز زہرہ بلوچ نے بتایا کہ ہم نے متعلقہ عدالت کے سنائے گئے فیصلے اور مقامی پولیس کی جانب سے جاری تفصیلات کو نوٹ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: داسو ہائیڈرو پاور پلانٹ کے قریب ’حملے‘ میں 9 چینی انجینئرز سمیت 12 افراد ہلاک
ان کا کہنا تھا کہ مخصوص سوالات متعلقہ حکام کو بھیجے جاسکتے ہیں، اس معاملے میں فعال تفتیش، استغاثہ اور فیصلے نے ایک بار پھر دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کےلیے پاکستان کے پختہ عزم کو ظاہر کیا ہے۔
دفتر خارجہ کی ترجمان نے متاثرہ اہلِ خانہ سے گہری تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان چینی مزدوروں، منصوبوں اور ملک کے اداروں کی حفاظت اور سیکیورٹی کے لیے پُرعزم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاک-چین اسٹریٹجک تعاون پر مبنی شراکت داری کو دشمن طاقتیں کبھی بھی کمزور نہیں کر سکتیں۔
بس حادثہ
14 جولائی 2021 کو خیبر پختونخوا کے ضلع اپر کوہستان میں داسو ہائیڈرو پاور پلانٹ کے قریب ’حملے‘ میں 9 انجینئرز، دو فرنٹیئر کور (ایف سی) اہلکاروں سمیت کم از کم 12 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔
اس وقت کے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا تھا کہ داسو واقعے کی ابتدائی تفتیش میں بارودی مواد کے استعمال کی تصدیق ہوگئی ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا تھا کہ ’دہشت گردی سے انکار نہیں کیا جاسکتا، وزیر اعظم ذاتی طور پر اس حوالے سے تمام پیشرفت کی نگرانی کر رہے ہیں‘۔
یہ بھی پڑھیں: داسو بس حملے میں ملوث ہونے کا شبہ، 2 ملزمان گرفتار
ان کا کہنا تھا کہ ’اس سلسلے میں حکومت چینی سفارتخانے کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے، ہم مل کر دہشت گردی کی لعنت سے لڑنے کے لیے پرعزم ہیں‘۔
ایک سال سے زائد عرصے کے بعد 11 نومبر کو ہزارہ میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے جج سجاد احماد جان نے ہری پور جیل میں قید ملزمان کی موجودگی میں فیصلہ سنایا۔
پولیس کی جانب سے تفتیش مکمل کرنے کے بعد انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزمان کو ہری پور کی سینٹرل جیل میں منتقل کرنے کے احکامات دیے تھے جہاں ویڈیو لنک کے ذریعے مقدمے کی سماعت کی گئی۔
استغاثہ کے ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ ایک کار جس میں 100 سے 120 کلو دھماکا خیز مواد تھا وہ بس سے ٹکرا گئی تھی، بمبار کے اعضا سے ظاہر ہوا تھا کہ وہ پاکستانی شہری نہیں ہے۔
سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ داسو ہائیڈرو پاور پلانٹ پر حملے میں افغانستان اور بھارت کی خفیہ ایجنسیز ’این ڈی ایس‘ اور ’را‘ ملوث ہیں اور یہ بات بھی سامنے آئی کہ اس کی منصوبہ بندی افغانستان میں بیٹھ کر کی گئی۔