ایلون مسک کے بعد ٹوئٹر کا مستقبل کیا ہے؟
اس بات کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب ایلون مسک، ٹوئٹر ہیڈکوارٹرز میں کچن کا سنک لیے داخل ہوئے جو ٹوئٹر پر ان کی ملکیت کا اشارہ تھا۔
ٹوئٹر صارفین نے پہلے 44 ارب ڈالر کے عوض ٹوئٹر کی فروخت کی خبر کو ’سنک اِن‘ ہونے [یعنی پوری طرح سمجھنے] دیا اور پھر اس بارے میں باتیں کرنا شروع کیں کہ ایلون مسک کا اگلا قدم کیا ہوگا۔
ایلون مسک ٹوئٹر کے ساتھ کیا کرنے جارہے ہیں؟
پہلے تو ٹوئٹر خریدنے سے متعلق اپنے ارادے سے مہینوں تک بھاگنے کی کوشش ہوئی مگر پھر عین اس وقت ٹوئٹر ایلون مسک کی نجی ملکیت بن گیا جب اصل معاہدے کے نفاذ کے لیے ایک طویل اور ممکنہ طور پر شرمناک اور مہنگی قانونی چارہ جوئی شروع ہونے کو تھی۔
اگر ہم ماہرین کی رائے دیکھیں تو ان کے مطابق ایلون مسک نے ایک ایسے پلیٹ فارم کے لیے کچھ زیادہ ہی رقم کی ادائیگی کردی ہے جو نہ اپنے سرمایہ کاروں کے معیارات پر پورا اتر رہا ہے اور نہ ہی اپنے صارفین کے۔
ٹوئٹر کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد ایلون مسک کی جانب سے اٹھائے گئے ابتدائی اقدامات کی وجہ بھی شاید یہی تھی۔ ان اقدامات میں ٹوئٹر اکاؤنٹ پر بلیو ٹک کے لیے ماہانہ 8 ڈالر (رقم کو ممالک کے حساب سے متعین کیا جائے گا) کی رقم وصولی کا ارادہ اور آدھے سے زیادہ ٹوئٹر عملے کو فارغ کرنے کی دھمکی دینا شامل تھا۔
انہوں نے مالک بنتے ہی اعلیٰ عہدیداران بشمول سی ای او پراگ اگروال، سی ایف او نیڈ سیگل، قانونی معاملات دیکھنے والی وجیا گڈے اور جنرل کونسلر سین ایجیٹ کو فارغ کردیا۔
کیا ٹوئٹر تباہی کی طرف جا رہا ہے؟
ٹوئٹر کے مکمل اختیارات حاصل کرنے کے بعد ایلون مسک نے پہلا ٹوئیٹ کیا کہ ’پرندہ اب آزاد ہے‘۔ شاید یہ ان کے ارادوں کی بہترین ترجمانی تھی۔
ٹوئٹر خریدنے سے پہلے وہ ٹوئٹر پر سب سے زیادہ اعتراض یہ کرتے تھے کہ یہاں اظہارِ رائے پر بے تحاشہ پابندیاں ہیں اور ٹوئٹر پر عوام کو آزادی دینے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں اصلاحات لائی جائیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایلون مسک ٹوئٹر کی کارکردگی کو مزید بہتر کرنے کے حوالے سے بیانات تو اچھے دے رہے ہیں، لیکن یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ اسے ایک بے مثال ڈیجیٹل پلیٹ فارم بنانے کے لیے وہ کیا اصلاحات لائیں گے۔
ٹوئٹر کے نئے مالک نے مستقبل میں ’متنوع نقطہ نظر رکھنے والی کونٹینٹ ماڈریشن کونسل‘ کی تقرری کا اشارہ دیا ہے جسے مواد پر نگرانی اور معطل اکاؤنٹس کی بحالی کے بارے میں فیصلے کرنے کے اختیارات حاصل ہوں گے۔
یہ کوئی نیا خیال نہیں ہے۔ میٹا میں 2018ء سے ایک ایسا ہی بورڈ فعال ہے جو سابق سیاسی رہنماؤں، انسانی حقوق کے سرگرم کارکنان، تعلیمی ماہرین اور صحافیوں پر مشتمل ہے۔ یہ بورڈ مواد کے حوالے سے لیے جانے والے فیصلوں کی نگرانی کرتا ہے اور کئی مواقعوں پر یہ سی ای او مارک زکربرگ کی جانب سے لیے گئے فیصلوں کی مخالفت کرتا بھی نظر آتا ہے۔
خصوصاً جب انتخابات میں ناکامی کے بعد سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے واشنگٹن میں واقع کیپیٹل ہل کے باہر ہنگامہ آرائی کی گئی تب مارک زکربرگ نے ڈونلڈ ٹرمپ کو غیر معینہ مدت کے لیے فیس بک سے معطل کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کی اس بورڈ نے مخالفت کی۔
ابھی یہ واضح نہیں کہ کیا ٹوئٹر کی یہ کونسل ڈونلڈ ٹرمپ پر عائد ’مستقل پابندی‘ کے فیصلے کو معطل کرنے سے متعلق ایلون مسک کے مشورے پر غور کرے گی اور کیا ایلون مسک اس بورڈ کو اپنے فیصلے معطل کرنے کا اختیار دیں گے یا نہیں۔
بہرحال ایسے بورڈ کے قیام کی تجویز دے کر ایلون مسک اپنے بتائے ہوئے آزادی اظہارِ رائے کے نظریات سے خود ہی ایک قدم پیچھے ہٹ گئے ہیں۔
کئی لوگوں کو خدشہ ہے کہ اظہارِ رائے پر ایلون مسک کی اعتدال پسندی کی پالیسی ٹوئٹر پر نفرت انگیز مواد میں مزید اضافے کا سبب بنے گی۔
گزشتہ ہفتے چند نفرت انگیز اکاؤنٹس نے نسلی اعتبار سے غیر مہذب گفتگو کرکے ایلون مسک کی زیرِ نگرانی چلنے والے ٹوئٹر کی حدود کو جانچنے کی کوشش کی۔ امریکا کے نیشنل کونٹاجیئن ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے مطابق 28 اکتوبر کو ٹوئٹر پر غیر مناسب الفاظ کے استعمال کی شرح 500 فیصد سے زائد ریکارڈ کی گئی۔ تاہم ٹوئٹر کے سیفٹی اینڈ انٹیگریٹی شعبے کے سربراہ یوئل روتھ نے کہا کہ زیادہ تر توہین آمیز ٹوئٹس بہت محدود اکاؤنٹس سے کی گئی تھیں۔
مونٹکلیئر اسٹیٹ یونیورسٹی کے محققین کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ایلون مسک کی ملکیت میں آنے کے بعد، ٹوئٹر پر نفرت انگیز مواد میں بڑے پیمانے پر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
اس کے برعکس یوئل روتھ اور ایلون مسک دونوں نے تصدیق کی کہ ’ٹوئٹر کی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے‘ اور ’نفرت انگیز مواد‘ کے خلاف قوانین اب بھی پہلے کی طرح سخت ہیں۔
کیا ایلون مسک کا رویہ پہلے جیسا ہی رہے گا؟
شاید ٹوئٹر پر ٹرولنگ سے زیادہ بڑا مسئلہ ایلون مسک کا رویہ ہے۔ انہوں نے امریکی ہاؤس اسپیکر نینسی پلوسی کے شوہر پال پلوسی سے متعلق ایک سازشی تھیوری ٹوئیٹ کی اور پھر اسے ڈیلیٹ کردیا۔ اس عمل کو تو ایلون مسک کی غیر مناسب باتیں کرنے کی عادت ٹھہرا کر نظرانداز کیا جاسکتا ہے لیکن اگر غلط معلومات اور ذاتی حملے کرنا ہی وہ آزادی ہے جس کو وہ ٹوئٹر پر فروغ دینا چاہتے ہیں، تو یوں ان کے آزادی رائے کے نظریات پر کئی سوال اٹھ جاتے ہیں۔
ایلون مسک آن لائن مواصلاتی پلیٹ فارمز کے استعمال سے ابھرنے والے سماجی مسائل کے لیے ٹیکنوکریٹک حکمتِ عملی اپنا رہے ہیں۔ یعنی مسک کا یہ خیال ہے کہ ٹیکنالوجی تک مفت رسائی ’آزادی اظہار‘ کی ثقافتی اور سماجی حدود کو ختم کردیتی ہے اور اسے سب کے لیے فوری اور آسانی سے دستیاب بنا دیتی ہے۔
لیکن اکثر ایسا نہیں ہوتا، اسی لیے ہمیں کمزور اور پسماندہ افراد کے تحفظ کے لیے مواد پر کسی قسم کے کنٹرول کی ضرورت ہے۔
ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا ہم ارب پتی افراد کو اپنی سماجی حدود پر براہِ راست اثر انداز ہونے کی اجازت دینا چاہیں گے؟ اگر اجازت دیں گے تو پھر صارفین کے مفادات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ٹوئٹر کی شفافیت کو کیسے یقینی بنایا جائے گا؟
ٹوئٹر کا مالک بننے کے بعد ایلون مسک نے ٹوئٹر کو ہدایت کی کہ وہ بنیادی ڈھانچے کی سالانہ لاگت میں سے ایک ارب ڈالر بچائے جو مبیّنہ طور پر کلاؤڈ سروسز اور سرور اسپیس میں کٹوتیوں سے ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ ان کٹوتیوں کی وجہ سے غیر معمولی استعمال کے وقت ٹوئٹر کریش ہونے کے خطرات بڑھ جائیں گے، خصوصاً انتخابات جیسے مواقعوں پر۔
اور اسی لیے ایلون مسک کا ٹوئٹر کو ’ڈیجیٹل ٹاؤن اسکوائر‘ بنانے کا نظریہ ناکام ہوجاتا ہے۔ اگر ٹوئٹر کو ایسا پلیٹ فارم بنانا ہے جہاں عوام کو آزادی رائے کا کھلا موقع فراہم کیا جائے تو پھر اس کے بنیادی ڈھانچے کو بھی اتنا مضبوط بنانا ہوگا جو اہم مواقعوں پر ٹوئٹر کی سروسز کو یقینی بنائے۔
ٹوئٹر کے متبادل پلیٹ فارمز کیا ہیں؟
فی الحال ایسی کوئی خبر تو سامنے نہیں آئی کہ بڑے پیمانے پر صارفین ٹوئٹر کو خیرباد کہہ رہے ہیں مگر کچھ لوگ بہرحال ایسے ضرور ہیں جو ٹوئٹر چھوڑ کر دیگر پلیٹ فارمز کا رخ کررہے ہیں۔ ایلون مسک کے ٹوئٹر خریدنے کے بعد مختصر عرصے میں ہی TwitterMigration# ٹرینڈ کرنے لگا جبکہ دوسری جانب مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم ماسٹوڈان پر لاکھوں صارفین کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
ماسٹوڈان کے سرورز آزاد ہیں اور انہیں صارفین خود مینیج کرتے ہیں۔ ہر سرور کی ملکیت، اس کے استعمال پر نگرانی اور چلانے کا نظام ایک مخصوص کمیونٹی کے اختیار میں ہوتا ہے اور وہ اسے اپنا ذاتی سرور بھی بنا سکتے ہیں۔ لیکن اس میں ایک خرابی یہ بھی ہے کہ سرور کو چلانے کے لیے رقم درکار ہوتی ہے اور اگر سرور ایک بار غیر فعال ہوگیا تو آپ اپنے تمام مواد سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
ٹوئٹر سے نالاں صارفین نے ریڈ اِٹ، ٹمبلر، کاؤنٹر سوشل، لنکڈ اِن اور ڈسکورڈ کی جانب بھی رخ کیا ہے۔
بلاشبہ، بہت سے لوگ یہ جاننے کے لیے بھی بے چین ہیں کہ ٹوئٹر کے شریک بانی جیک ڈورسی صارفین کے لیے کیا متبادل لاتے ہیں۔ جیک جو اب بھی ٹوئٹر کے شیئر ہولڈر ہیں، انہوں نے اپنا سوشل میڈیا نیٹ ورک شروع کیا ہے جسے بلیو اسکائے سوشل کا نام دیا گیا ہے اور یہ ابھی اپنے آزمائشی مراحل میں ہے۔
بلیو اسکائے کا مقصد ایک اوپن سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی فراہمی ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ واضح معیارات پر مختلف سوشل نیٹ ورکس کو ایک دوسرے کے ساتھ جڑنے کا موقع فراہم کرے گا۔
اگر بلیو اسکائے کا تجربہ کامیاب ہوگیا تو یہ ٹوئٹر کا ایک مضبوط حریف بن کر سامنے آئے گا۔ جس کے بعد صارف آسانی سے اپنے مواد سمیت ٹوئٹر سے دوسرے پلیٹ فارم پر باآسانی منتقل ہوسکے گا۔
سوشل نیٹ ورکنگ کی دنیا میں یہ صارف پر مرکوز بالکل نیا ماڈل ہوگا اور شاید یہ روایتی پلیٹ فارمز کو مجبور کرے کہ وہ اپنے موجودہ ڈیٹا جمع کرنے کے ذرائع اور اپنے آن لائن اشتہارات کے طریقہ کار پر دوبارہ غور کریں۔ ٹوئٹر کے اس نئے حریف کا سب کو بے صبری سے انتظار ہے۔
یہ مضمون ابتدائی طور پر دی کنورسیشن میں اور بعد ازاں 13 نومبر 2022ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔