• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am

کیا صدرِ مملکت ایمرجنسی کے نفاذ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں؟

شائع November 10, 2022

پاکستان میں دھرنوں کی سیاست کا آغاز محترم قاضی حسین احمد صاحب نے کیا تھا۔ قاضی صاحب کے اس اقدام نے ان کی انتخابی سیاست پر کوئی اثر مرتب نہیں کیا تھا اور نہ ہی وہ کسی حکومت کو اکیلے گرانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ ان کی حکمتِ عملی مربوط اور منفرد تھی، مگر نتائج کے اعتبار سے کامیابی سے دُور رہی۔

ان کی جماعت کے نقشِ قدم پر چلنے کی روش عمران خان نے بھی اختیار کی۔ 2014ء میں تمام تر عوامل کے ہوتے ہوئے بھی عمران خان حکومت کو گرانے اور نئے انتخابات کروانے میں کامیاب نہیں ہوسکے اور طاہر القادری کی جماعت بھی کام نہ آئی۔

اس وقت جس انتخاب میں دھاندلی کی بات عمران خان کررہے تھے اس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سمیت 249 دیگر سیاسی جماعتیں بھی انتخابی عمل میں حصہ دار تھیں اور ایسا بھی نہیں تھا کہ پی ٹی آئی ہارنے والی نشستوں پر دوسرے نمبر پر تھی بلکہ بعض جگہ تو اس کے امیدوار بھی نہیں تھے۔

2018ء میں ریاست کے اہم اداروں سمیت نجی نشریاتی اداروں اور سب نے مل جل کر اس بات کی کوشش کی کہ روایتی سیاستدانوں سے ہٹ کر نیا تجربہ کیا جائے۔ اس تجربے کے لیے 10 سال سے تشہیر کی جارہی تھی اور اس کی کامیابی بھی سب نے دیکھ لی۔ لیکن ناتجربہ کاری کے سبب وہ نتائج برآمد نہیں ہوسکے جس کی امید کی جارہی تھی۔ جو مددگار تھے انہوں نے مزید بوجھ اٹھانے سے انکار کرتے ہوئے کہہ دیا کہ اپنا بوجھ خود اٹھاؤ، ہم مزید بوجھ برداشت نہیں کرسکتے۔

جماعت اسلامی کے نقشِ قدم پر چلنے کی روش عمران خان بھی اختیار کی— تصویر: اے پی
جماعت اسلامی کے نقشِ قدم پر چلنے کی روش عمران خان بھی اختیار کی— تصویر: اے پی

مزید پڑھیے: کیا ایک سال بعد پاکستان میں سب کچھ ٹھیک ہوچکا ہوگا؟

اب جناب عمران خان صاحب زخمی ٹانگ کے ساتھ فاسٹ باؤلر ڈینس لِلِی کی طرح باؤلنگ کروانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے لاہور سے نہایت اعتماد اور پُرعزم طریقے سے جی ٹی روڈ کا سفر شروع کیا تھا مگر جی ٹی روڈ تک آتے آتے ہی 3 روز لگ گئے اور پھر جی ٹی روڈ پر بریکیں لگتی چلی گئیں۔ شاید اس کی وجہ ناامیدی اور مایوسی ہو۔

وزیرآباد میں جو افسوسناک واقعہ پیش آیا وہ قابلِ مذمت ہے۔ سیاسی اجتماعات میں گولی کا چلنا تو بہت ہی افسوسناک واقعہ ہے۔ ایک بے قصور اور چاہنے والے کی جان گئی، اس کے بچے یتیم ہوگئے اور اب وہ ساری زندگی کرب میں رہیں گے۔

ایوب خان کے دور میں بھاٹی گیٹ کے باہر مولانا مودودی کے اجتماع پر بھی گولی چلی تھی۔ اللہ بخش شہید کو اب تک سیاسی کارکن نہیں بھول سکے۔ ایک کروڑ روپے معظم گوندل کو کافی نہیں تھے۔ خیر خان صاحب اب پھر اس سیکڑوں کے لانگ ٹرم شارٹ مارچ کو 2 نمبر قیادت کے ذریعے چلانا چاہتے ہیں۔ مجھے تو اس کے مقاصد پوری طرح واضح نہیں ہیں اور جو معلوم ہیں ان کے پورے ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

مزید پڑھیے: عمران خان کا لانگ مارچ: تحریک انصاف اور حکمران اتحاد کس پریشانی سے دوچار ہیں؟

اگر خان صاحب آرمی چیف اپنی مرضی کا لگوانا چاہتے ہیں تو شہباز شریف پہلے ہی بتاچکے ہیں کہ اس سے خان صاحب کا کوئی واسطہ تعلق نہیں، یہ آئینی معاملہ ہے اور اب جب سب کچھ آئین کے تحت چل رہا ہے تو آپ اس کی بالادستی پر یقین رکھیں اور اگر انتخابات کی تاریخ چاہیے تو اسمبلی کی معیاد ختم ہونے کے 45 دن میں الیکشن ہوں گے۔ ویسے تو یہ 90 دن میں ہوتے ہیں۔ گویا خان صاحب کو انتظار ہی کرنا پڑے گا اور شدت انتظار کوئی آسان کام نہیں۔

پی ٹی آئی کو انتظار ہی کرنا پڑے گا جو آسان کام نہیں— تصویر: ٹوئٹر
پی ٹی آئی کو انتظار ہی کرنا پڑے گا جو آسان کام نہیں— تصویر: ٹوئٹر

پی ٹی آئی کی قیادت کو اپنی غیر منظم جماعت کو منظم کرنے کا جو وقت مل رہا ہے اس کو وہ صوبوں اور وفاق کے درمیان محاذ آرائی اور قانون شکنی کی نذر کررہے ہیں۔ سڑکوں کو بند کرنا، شہریوں کی نقل و حرکت پر بندش لگانا، روزگار کے ذرائع کو بند کرنا اور وفاق کے افسران پر دباؤ ڈالنا ایسے اقدامات ہیں جن پر وفاقی حکومت نوٹس لے سکتی ہے۔

ایسے تمام معاملات جن کے بارے میں کہا جاسکے کہ حکومت یا صوبائی حکومتیں غیرآئینی طور پر کررہی ہیں تو پھر آئین کی دفعہ 234 کے تحت گورنر، صدر کو تحریری طور پر مطلع کرسکتا ہے کہ صوبے کی حکومت دستور کے احکام کے مطابق صوبہ نہیں چلا رہی۔ ایسے میں صدر سینیٹ اور قومی اسمبلی سے الگ الگ ایمرجنسی کے حق میں قرارداد منظور ہونے کے بعد پابند ہوگا کہ ایمرجنسی کا اعلان کرے۔

صدرِ مملکت ایمرجنسی کے نفاذ کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کرسکیں گے۔ صوبے یا اس کے کسی حصے میں جب بھی ایمرجنسی نافذ ہوگی تو بنیادی حقوق بھی معطل ہوجائیں گے۔ ان حقوق میں نقل وحرکت کی آزادی، اجتماع کی آزادی، انجمن سازی کی آزادی اور تقریر کی آزادی سمیت دیگر بھی شامل ہیں۔

عمران خان خود تو پہلے ہی بند گلی میں داخل ہوچکے ہیں مگر اب وہ صوبوں کی آئینی حکومتوں کو بھی اسی بند گلی میں لے جانے کے درپے ہیں۔ افواجِ پاکستان اپنے افسران کے خلاف الزامات اور من گھڑت کہانیوں پر نہ صرف احتجاج کرچکی ہے بلکہ ایسا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا بھی مطالبہ کررہی ہے۔

دوسری جانب اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ سعودی ولی عہد پاکستان آرہے ہیں اور یہ 2 ہفتوں کے دوران ہی ہوگا۔ ان کی آمد پر اربوں ڈالر کے معاہدات اور آئل ریفائنری کے معاملات بھی حتمی شکل اختیار کرسکیں گے۔ چین اور سعودی عرب اگر مل کر ہمارے ہاں سرمایہ کاری کرتے ہیں تو کم از کم توانائی کے بحران پر قابو پانے کے امکانات روشن ہوں گے۔

اس بات کا امکان ہے کہ سعودی ولی عہد پاکستان کا دورہ کریں گے
اس بات کا امکان ہے کہ سعودی ولی عہد پاکستان کا دورہ کریں گے

مزید پڑھیے: پی ٹی آئی لانگ مارچ: ’کوریج کے دوران جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا‘

سعودی گھڑی تو ہم بیچ چکے ہیں ورنہ آئل ریفائنری کا کام کب کا ہوچکا ہوتا لیکن اب نہ حکومت اور نہ ہی فوج اس موقع کو ضائع ہونے دیں گے اور غالباً جنرل باجوہ کے پس پشت رہ کر ہونے والے بڑے کاموں میں سے ایک کام یہ بھی ہوگا۔ گویا ہماری معاشی مشکلات میں کمی کا سفر شروع ہوا چاہتا ہے اور یہی ہماری حقیقی آزادی کا سفر ہوگا۔

اگر گھڑی نہ بکتی اور زبان محفوظ رہتی تو عمران خان پر یہ الزام بھی نہیں لگتا کہ انہوں نے سفارتی آداب اور تعلقات کا خیال بھی نہیں رکھا۔ 2014ء میں ان کی وجہ سے چینی صدر نہ آسکے اس لیے اب عمران خان یہ بوجھ نہیں اٹھا سکیں گے کہ ان کی وجہ سے سعودی ولی عہد کا دورہ مؤخر ہو۔

یہ رائے ہے کہ کوئی بھی عمران خان کو جتھے کے ساتھ اسلام آباد آنے کی اجازت نہیں دے گا اور اسلام آباد آکر بھی وہ کچھ حاصل نہیں کرسکیں گے۔ اب سعودی ولی عہد کا دورہ مؤخر ہو یہ عمران خان کے لیے اتنا بڑا بوجھ ہوگا کہ وہ اسے اٹھانا بھی چاہیں تو نہیں اٹھا سکیں گے۔

جرنیل اور سیاستدان بار بار غلطی کرکے کبھی سرخرو نہیں ہوتے، قانونِ فطرت تبدیل نہیں ہوتا اور انسان ہی کو اپنے رویے میں تبدیلی لانی ہوتی ہے۔

عظیم چوہدری

عظیم چوہدری سینئر صحافی اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ کا ای میل ایڈریس ہے [email protected] اور آپ ٹوئٹر پر یہاں MAzeemChaudhary@ ان سے رابطہ کرسکتے ہیں

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024