نیب ترامیم کیس: کیا عدالت پارلیمنٹ کو ترامیم لانے سے روک دے، جسٹس منصور علی شاہ
سپریم کورٹ میں قومی احتساب بیورو (نیب) قانون میں ترامیم کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ کیا عدالت پارلیمنٹ کو ترامیم لانے سے روک دے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی خصوصی بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔
یہ بھی پڑھیں: امید ہے ٹی20 ورلڈ کپ میں کرکٹ ٹیم سے اچھی خبر آئے گی، چیف جسٹس
نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل کی جانب سے اقوام متحدہ، یورپی یونین اور افریقی یونین کی جانب سے انسداد کرپشن کنونشن کی دستاویزات حوالے کی گئیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مطابق کرپشن کے حوالے سے کچھ بینچ مارک ہیں جنہیں برقرار رکھنا ہے، ابھی یو اے ای بھی منی لانڈرنگ کے کمزور قوانین کی وجہ سے گرے لسٹ میں ہے، آپ کیس میں بنیادی حقوق پر بات کریں۔
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کرپشن سے بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہیں، فئیر ٹرائل اور اور برابری کا حق بھی متاثر ہوتا ہے، اس دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عوامی پیسے کے غلط استعمال سے بھی عوام کا اعتماد خراب ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں: نیب ترامیم کیس: اختیارات کے ناجائز استعمال کا جرم کسی دوسرے قانون میں نہیں، جسٹس اعجازالاحسن
اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آپ کی باتیں پارلیمنٹ کے لیے اچھی تقریر ہے، خواجہ حارث نے کہا کہ پارلیمنٹ میں تو کوئی سننے کو تیار نہیں، انہیں جو کرنا ہے وہ کرنا ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سننے کے لیے پارلیمنٹ میں ہونا بھی چاہیے، اگر آپ انتخابات جیتتے ہیں تو اپنی ترامیم لائیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ دنیا کا ہر ملک کرپشن قوانین اور سزاؤں کو سخت کرنے کا کہہ رہا ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ حارث صاحب کا خیال ہے جو چھوٹ گئے ان کو پکڑنا مشکل ہوگا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ سوئس اکاؤنٹس کیس میں کیس ختم ہوتے ہی سارا ریکارڈ غائب کردیا گیا، نیب ریفرنسز میں بھی اصلی دستاویزات نہ ہونے سے ملزمان بری ہوئے، 31 اے ختم نہ ہوتا تو اسحٰق ڈار واپس نہیں آسکتے تھے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا بطور قوم ہم یہ سب افورڈ کرتے ہیں، روز بریت کے لیے درخواستیں آرہی ہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی ایسا کرے گا تو عوام اس کو ووٹ نہیں دیں گے، کیا عدالت پارلیمنٹ کو ترامیم لانے سے روک دے۔
یہ بھی پڑھیں: واپس ہونے والے تمام نیب ریفرنسز کی تفصیلات سپریم کورٹ میں پیش کرنے کا حکم
خواجہ حارث نے مؤقف اپنایا کہ پورا نظام مفلوج کیا جارہا ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جتنا آپ دلائل دیں گے ہم میچ سے دور ہوتے جائیں گے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ترامیم ختم ہونے سے کیا عدالتوں کے احکامات ختم ہو جائیں گے، سپریم کورٹ قوانین کو بحال بھی کرسکتی ہے۔
اس کے ساتھ ہی عدالت عظمٰی نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔
نیب ترامیم
خیال رہے کہ رواں سال جون میں مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں لیکن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی، تاہم اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: 'دیکھنا ہوگا نیب قانون میں ترامیم بنیادی حقوق سے متصادم ہیں یا نہیں'
نیب (دوسری ترمیم) بل 2021 میں کہا گیا ہے کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا، بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی 4 سال کی مدت بھی کم کر کے 3 سال کردی گئی ہے۔
قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا، مزید یہ کہ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: نیب ترامیم کیس: 21 سال میں ہونے والی پلی بارگین کی تفصیلات سپریم کورٹ میں جمع
بل میں کہا گیا ہے کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی، بل نے احتساب عدالتوں کے ججوں کے لیے 3 سال کی مدت بھی مقرر کی ہے، یہ عدالتوں کو ایک سال کے اندر کیس کا فیصلہ کرنے کا پابند بھی بنائے گا۔
مجوزہ قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے، بل میں شامل کی گئی ایک اہم ترمیم کے مطابق یہ ایکٹ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے شروع ہونے اور اس کے بعد سے نافذ سمجھا جائے گا۔