’منحرف اراکین کے ڈی سیٹ ہونے کے بعد نئے ارکان منتخب ہو چکے، انہیں فریق بنائیں‘
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منحرف ارکان کی الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کے دوران عدالت نے نومنتخب اراکین اسمبلی کو کیس میں فریق بنانے کی ہدایت دے دی۔
سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کی الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف اپیل پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان نے منحرف اراکین کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا دیا
منحرف اراکین نے اپیلوں پر دلائل کے لیے وکیل تبدیل کرتے ہوئے ایڈووکیٹ عمر اسلم کی خدمات حاصل کر لیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے ایڈووکیٹ عمر اسلم کا خیر مقدم کیا گیا۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ منحرف اراکین کے ڈی سیٹ ہونے کے بعد نئے ارکان منتخب ہو چکے ہیں۔
ایڈووکیٹ عمر اسلم نے کہا کہ مجھے گزشتہ شب ہی وکیل مقرر کیا گیا ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو تیاری کے لیے وقت دے دیتے ہیں۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کے منحرف اراکین اسمبلی کو ڈی سیٹ کرنے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ معاملے میں بڑے دلچسپ سوال کا جائزہ لینا ہے، نئے منتخب ہونے والے اراکین کو بھی فریق بنائیں۔
بعد ازاں عدالت نے منحرف رکن محسن عطا خان کھوسہ کو اپیل واپس لینے کی اجازت دیتے ہوئے مقدمے کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔
خیال رہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کو ڈی سیٹ کرنے کے فیصلے کے خلاف دائر اپیلیں 5 نومبر کو سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر کی گئی تھیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل تین رکنی بینچ کو آج کیس کی سماعت کرنا تھی۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے منحرف اراکین کی جانب سے پنجاب کی وزارت اعلی کے الیکشن میں حمزہ شہباز کو ووٹ دینے پر عمران خان کی جانب سے دائر ر یفرنس پر تحریک انصاف کے 25 ارکان کو ڈی سیٹ کیا تھا۔
بعد ازاں منحرف اراکین نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔
فیصل واڈا نااہلی کیس کی سماعت 21 نومبر تک ملتوی
دریں اثنا سپریم کورٹ میں فیصل واڈا کی تاحیات نااہلی کیس کی چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پچھلی سماعت پر 2 سوالات پوچھے گئے تھے، ایک سوال یہ تھا کہ ہائی کورٹ کی 62 ون ایف کے تحت ڈکلئیریشن کو برقرار رکھا جاسکتا ہے یا نہیں، دوسرا سوال تھا کہ کیوں نہ حقائق کی روشنی میں مکمل انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے آرٹیکل 187 کا اختیار استعمال کرے۔
مزید پڑھیں: فیصل واڈا نااہلی کیس: ’آئندہ سماعت پر کوئی نہ آیا تو فیصلہ محفوظ کرلیں گے‘
فیصل واڈا کے وکیل نے کہا کہ عدالتی سوالات پر تحریری جواب تیار کیا ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ تحریری جواب تیار کر کے آپ نے بہت اچھا کیا اس کو دیکھ لیں گے، وقت کی کمی ہے اور آئندہ ہفتے نئے ججز کی وجہ سے یہ بینچ دستیاب نہیں ہوگا، کوشش کریں گے کیس کسی ایسے بینچ میں لگے جس میں موجودہ بینچ کا کوئی رکن ہو۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے وقت کی کمی اور آئندہ ہفتے بینچ کی دستیابی نہ ہونے پر سماعت 21 نومبر تک ملتوی کردی۔
یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے فیصل واڈا کے خلاف دوہری شہریت پر نااہلی کی درخواستوں پر فیصلہ 23 دسمبر 2021 کو محفوظ کیا تھا۔
محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن نے فیصل واڈا کو آئین کے آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت تاحیات نااہل قرار دیا تھا جبکہ انہیں بطور رکن قومی اسمبلی حاصل کی گئی تنخواہ اور مراعات دو ماہ میں واپس کرنے کا حکم بھی دیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: تاحیات نااہلی کے خلاف فیصل واڈا کی درخواست مسترد
اس کے علاوہ ای سی پی نے فیصل واڈا کے بطور سینیٹر منتخب ہونے کا نوٹی فکیشن بھی واپس لے لیا تھا جبکہ ان کی جانب سے بحیثیت رکن قومی اسمبلی، سینیٹ انتخابات میں ڈالے گئے ووٹ کو بھی 'غلط' قرار دیا گیا تھا۔
فیصل واڈا پر الزام تھا کہ انہوں نے 2018 کے عام انتخابات میں کراچی سے قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑتے ہوئے اپنی دوہری شہریت کو چھپایا تھا۔
فیصل واڈا نااہلی کیس 22 ماہ سے زائد عرصے تک زیر سماعت رہا، مذکورہ کیس پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی کیس پر سماعت ہوئی۔
فیصل واڈا کی دوہری شہریت کے خلاف قادر مندوخیل کی جانب سے 2018 میں درخواست دائر کی گئی تھی۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ جس وقت فیصل واڈا نے قومی اسمبلی کے انتخاب کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے اس وقت وہ دوہری شہریت کے حامل اور امریکی شہری تھے۔
یہ بھی پڑھیں: فیصل واڈا کی نااہلی کے خلاف درخواست سماعت کے لیے مقرر
درخواست میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ فیصل واڈا نے انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے الیکشن کمیشن میں ایک بیانِ حلفی دائر کیا تھا کہ وہ کسی دوسرے ملک کے شہری نہیں ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ چونکہ انہوں نے جھوٹا بیانِ حلفی جمع کرایا تھا اس لیے آئین کی دفعہ 62 (1) (ف) کے تحت وہ نااہل ہیں۔
درخواست کی سماعت کے دوران سابق وزیر کے وکیل کا کہنا تھا کہ فیصل واڈا نے کوئی جھوٹ نہیں بولا، کاغذات نامزدگی جمع کروانے سے قبل انہوں نے اپنا غیر ملکی پاسپورٹ منسوخ کروا دیا تھا۔
سماعت کے دوران فیصل واڈا کے وکیل بیرسٹر معید نے ان کا پیدائشی سرٹیفکیٹ کمیشن میں جمع کروایا اور بتایا تھا کہ فیصل واڈا امریکی ریاست کیلی فورنیا میں پیدا ہوئے تھے اور پیدائشی طور پر امریکی شہری تھے۔