• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

عمران خان پر حملے کی تحقیقات کیلئے چیف جسٹس جوڈیشل کمیشن بنائیں، وزیراعظم

شائع November 8, 2022
وزیراعظم نے چیف جسٹس سے کہا ہے واقعے کی تحقیقات ضروری ہے—فائل/فوٹو: ڈان نیوز
وزیراعظم نے چیف جسٹس سے کہا ہے واقعے کی تحقیقات ضروری ہے—فائل/فوٹو: ڈان نیوز

وزیراعظم شہباز شریف نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے خط کے ذریعے درخواست کی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان پر ہونے والے حملے کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے تمام دستیاب ججوں پر مشتمل کمیشن تشکیل دی جائے۔

وزیراعظم نے چیف جسٹس عمر عطابندیال کو معروف صحافی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کی درخواست کے بعد اپنے دوسرے خط میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان پر فائرنگ کے واقعے کے حقائق جاننے کے لیے جوڈیشل کمشن بنانے کی استدعا کی ہے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کا عمران خان کے الزامات پر چیف جسٹس سے فل کورٹ کمیشن بنانے کا مطالبہ

وزیراعظم نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے تمام دستیاب جج صاحبان پر مشتمل کمیشن بنایا جائے جو 5 سوالات پر خاص طور پر غور کرسکتا ہے۔


وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے پنجاب کے ضلع وزیرآباد میں پیش آنے والے واقعے کے حوالے سے اٹھائے گئے سوالات:

  • کارواں کی حفاظت کی ذمہ داری کون سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تھی، کارواں کی حفاظت کے لیے مروجہ حفاظتی اقدامات اور اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز) لاگو کیے گئے اور کیا ان پر عمل کیا گیا؟
  • حادثے کے اپنے حقائق کیا ہیں، ایک سے زیادہ شوٹرز کی موجودگی کی اطلاع، جوابی فائرنگ، مجموعی طور پر نشانہ بننے والوں کی تعداد، ان کے زخموں کی نوعیت سے متعلق حقائق کیا ہیں؟
  • قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انتظامی حکام نے مروجہ تفتیشی طریقہ کار کو اختیار کیا؟
  • وقوع کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انتظامی حکام نے شہادتیں جمع کرنے اور صورت حال سے نمٹنے کے مروجہ طریقہ کار کو اختیار کیا، اگر ایسا نہیں ہوا تو ضابطے کی کیا خامیاں اور کمزوریاں سامنے آئیں اور ضابطے کی ان کوتاہیوں کا ذمہ دار کن انتظامی حکام، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور صوبائی حکومت کے عہدیداروں کو ٹھہرایا گیا؟
  • کیا وقوع کی تحقیقات کے عمل میں دانستہ رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں اگر رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں تو یہ عناصر کون ہیں اور ایسا کیوں کر رہے ہیں، کیا یہ قاتلانہ سازش تھی جس کا مقصد واقعی پی ٹی آئی چئیرمن کو قتل کرنا تھا یا یہ محض ایک فرد کا اقدام تھا، ان دونوں صورتوں میں سے کسی ایک کے بھی ذمہ دار عناصر کون ہیں؟

وزیراعظم نے چیف جسٹس کو لکھے گئے خط میں کہا کہ قانون کی حکمرانی کے مفاد میں اس درخواست پر عمل پر وفاقی حکومت مشکور ہوگی اور اس مقصد کے حصول میں وفاقی حکومت کمیشن کو مکمل معاونت فراہم کرے گی۔

چیف جسٹس کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ وزیر آباد میں عمران خان کے جلوس میں فائرنگ کے افسوس ناک واقعے سے ملک ہیجانی کیفیت اور امن وامان کے بحران کا شکار ہے، پی ٹی آئی کے رہنما زہر آلود تقاریر کر رہے ہیں، پرتشدد ہنگامہ آرائی سے ریاست افراتفری اور شہریوں کی جان ومال کو خطرات درپیش ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اعلیٰ افسر کے خلاف عمران خان کے الزامات بے بنیاد اور ناقابل قبول ہیں، آئی ایس پی آر

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اور عالمی میڈیا میں اس کی کوریج ہو رہی ہے 72گھنٹے گزرنے پر بھی ایف آئی آر نہ ہوئی، پی ٹی آئی کے ماتحت حکومت پنجاب حکومت نے بدقسمتی سے تحققیات میں ان قانونی تقاضوں کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جن پر ایسے واقعات میں عمل کیا جاتا ہے۔

خط میں کہا گیا کہ افسوس ناک امر ہے کہ کرائم سین (جائے وقوع) محفوظ نہیں کیاگیا، جس کنٹینر پر یہ واقعہ ہوا جہاں لوگ زخمی ہوئے، اس سے بھی فارنزک کے لیے تحویل میں نہیں لیا گیا۔

شہباز شریف نے کہا کہ پی ٹی آئی چیئرمین کی میڈیکو لیگل رپورٹ بھی نہیں ہوئی اور عمران خان کو ایک نجی ہسپتال منتقل کیا گیا جو قانون کے مطابق میڈیکو لیگل کا عمل نہیں ہے۔

انہوں نے لکھا کہ واقعے کے بعد جو طریقہ کار اپنایا گیا اس سے شک ہے کہ حکومت پنجاب اور اس کے ذمہ دار شہادتوں سے گڑبڑ کر سکتے ہیں، تحقیقات اور شہادتیں جمع کرنے کا مروجہ طریقہ کار نہ اپنانا بدنیتی کا مظاہرہ ہے۔

وزیراعظم نے چیف جسٹس سے کہا ہے کہ وفاقی حکومت اس بارے میں پہلے ہی خط لکھ کر صوبائی انتظامیہ کو اپنے سنگین تحفظات سے آگاہ کر چکی ہے، پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتوں کی سرپرستی میں شرپسند نجی اور سرکاری عمارتوں، گورنر ہاؤس پنجاب اور دیگر مقامات پر پرتشدد حملے کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ریاستی اداروں خاص طور پر مسلح افواج کے خلاف کردار کشی اور بے بنیاد الزامات کی غلیظ مہم چلائی جا رہی ہے، مسلح افواج پر وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر سازش کرنے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔

چیف جسٹس کو بتایا گیا ہے کہ درست حقائق کے تعین اور عوامی اعتماد کی خاطر وفاقی حکومت کی رائے میں سپریم کورٹ کا کمیشن بننا ضروری ہے، سپریم کورٹ کا کمیشن ذمہ داروں کا تعین کرے اور اصل حقائق سامنے لائے۔

مزید پڑھیں: عمران خان جہاں سے مرضی تحقیقات کروائیں لیکن اس میں پیش اور الزامات کے ثبوت دیں، مریم اورنگزیب

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ہمیشہ آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے، موجودہ حالات امن عامہ اور پاکستان کی ریاستی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔

شہباز شریف نے خط میں کہا ہے کہ ان حالات میں وفاقی حکومت کی درخواست ہے کہ سپریم کورٹ کے تمام دستیاب جج صاحبان پر مشتمل جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔

اس سے قبل وزیراعظم نے چیف جسٹس عمر عطابندیال کو ایک خط میں معروف صحافی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کی درخواست کی تھی۔

چیف جسٹس کے نام خط میں وزیراعظم شہباز شریف نے ارشد شریف کے قتل سے متعلق حقائق جاننے کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کی استدعا کرتے ہوئے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے تمام دستیاب جج صاحبان پر مشتمل کمیشن بنایا جائے۔

یاد رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے 6 نومبر کو لاہور میں پریس کانفرنس میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال سے درخواست کی تھی کہ وہ عمران خان کے الزامات کی تحقیقات کے لیے فل کورٹ کمیشن تشکیل دیں۔

وزیراعظم نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ بدترین قسم کی الزام تراشی کی گئی ہے، ایک مرتبہ پھر جھوٹ اور گھٹیا پن کا مظاہرہ کیا گیا۔

مزید پڑھیں: وزیر آباد: لانگ مارچ میں کنٹینر پر فائرنگ، عمران خان سمیت کئی رہنما زخمی، حملہ آور گرفتار

ان کا کہنا تھا کہ یہ کہا گیا کہ اس واقعے کے پیچھے ایک سازش ہوئی ہے جو وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور ایک ادارے کے ایک اہم افسر تینوں نے مل کر کی ہے، یہ افسوس ناک بات ہے، یہ گھڑی ایسی ہے کہ سخت الفاظ سے پرہیز کرنا چاہیے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ آج قوم تاریخ کے اس موقع پر آ پہنچی ہے کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنا ہوگا، اس کے بغیر یہ ملک آگے نہیں چل سکے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے ملتمس ہوں کہ فُل کورٹ کا کمیشن بنائیں، اس ملک کے بہترین مفاد میں، عدل اور انصاف کے مفاد میں اور یہ فساد، فتنہ ختم کرنے کے لیے فل کورٹ پر مبنی کمیشن تشکیل دیں، میں خط کے ذریعے آپ کو درخواست کروں گا۔

کارٹون

کارٹون : 25 نومبر 2024
کارٹون : 24 نومبر 2024