کوپ 27 کانفرنس: موسمیاتی تبدیلی کا بوجھ منصفانہ طور پر تقسیم ہونا چاہیے، شہباز شریف
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کا بوجھ برابری کی بنیاد پر نہیں بلکہ منصفانہ طور پر تقسیم ہونا چاہیے، یہ موسمیاتی انصاف کا معاملہ ہے کیونکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سب سے زیادہ کمزور طبقے پر پڑتے ہیں۔
سرکاری خبر رساں ادارے ’اے پی پی‘ کی رپورٹ کے مطابق مصر کے شہر شرم الشیخ میں منعقد ہونے والی ’کوپ 27‘ موسمیاتی کانفرنس کے مختلف اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف نے شرکت کی اور خطاب کیا۔
کوپ 27 کے اختتام پر گول میز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی اس دہائی کا اہم بحران ہے اور ہم اس کے خلاف اپنی اجتماعی لڑائی کے تاریخی لمحے میں ہیں، ہمارے پاس خاص طور پر ایسے ممالک اور کمیونٹیز جو انتہائی خطرے سے دوچار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب یہ ایک مسلمہ سائنسی حقیقت ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ ہماری منصوبہ بندی سے کہیں زیادہ تیزی سے ہو رہی ہے، یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ترقی پذیر یا کم ترقی یافتہ ممالک اور کمیونٹیز، جو فرنٹ لائن پر ہیں، کو مدد کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کم کرنے کیلئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے، وزیراعظم
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ بہت سے ممالک بالخصوص افریقی ممالک جنہیں تباہ کن خشک سالی کا سامنا رہا ہے، کمزور اقوام کے گروپ میں آتے ہیں، پھر بھی ہماری طرح کم اخراج والے ممالک زندگی اور معاش کے حوالے سے بدلتے ہوئے خطرات کا سامنا کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میرا اپنا ملک بھی اس صورت حال سے گزر رہا ہے اور اس وقت بھی اسی طرح کی کیفیت کا ہمیں سامنا ہے، پاکستان میں تباہ کن سیلاب نے تیزی سے ہمارے ذہنوں کو اس بات پر مرکوز کر دیا ہے کہ اس طرح کی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سب سے زیادہ کمزور طبقے پر پڑتے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، موسمیاتی تبدیلی اور تنازعات خواتین اور بچوں کے ساتھ ساتھ غریب ترین افراد کو بھی متاثر کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ 3 کروڑ 30 لاکھ افراد میں سے نصف سے زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے، جن میں سے 6 لاکھ 50 ہزار حاملہ خواتین کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، 4410 ملین ایکڑ زرعی زمین کو نقصان پہنچا، سندھ میں کپاس کی پوری فصل ختم ہو گئی ہے، تقریباً 40 لاکھ بچوں کو صحت کی سہولیات تک رسائی نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: وزیر اعظم کی شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات، باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال
وزیراعظم شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ زیادہ تر موسمیاتی آفات بالخصوص سیلاب اور اس کے بعد صحت جیسے مسائل جنم لیتے ہیں جن میں جسمانی اور ذہنی صحت دونوں شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ متاثرہ علاقوں کے دورے کے دوران کیمپوں میں مشکلات کے شکار افراد کو دیکھا ہے اور ایک ہفتہ پہلے تک 82 لاکھ افراد کو صحت کی خدمات کی فوری ضرورت تھی، میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح کی صحت کی ہنگامی صورتحال اس براعظم میں بھی عام ہے اور یہاں سب کو یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ یہ شدید موسم، بشمول خشک سالی کی وجہ سے بڑھتے ہیں اور یہ نیا معمول نہیں بننا چاہیے۔
وزیراعظم نے کہا کہ انسانیت موسمیاتی تبدیلی کے ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے، قابل قبول موسمیاتی تبدیلی کی حد پہلے ہی عبور ہو چکی ہے، پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ یقیناً پاکستان میں نہیں رہے گا اور اس کا ثبوت نائجیریا اور جنوبی سوڈان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حالیہ اثرات سے ظاہر ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے بلاشبہ اجتماعی نکتہ نظر کی ضرورت ہوگی تاکہ سب سے زیادہ کمزور طبقے کی مدد کی جا سکے۔
وزیراعظم نے کہا کہ عالمی بینک کا اندازہ ہے کہ اگر ہم نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے اب اقدامات نہ کیے تو 2050 تک 21 کروڑ 60 لاکھ افراد بے گھر ہو جائیں گے جن کی زیادہ تر تعداد افریقہ اور جنوبی ایشیا میں ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: کوپ 27 کانفرنس: شہباز شریف کا موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کا مطالبہ
ان کا کہنا تھا کہ پچھلی دو دہائیوں کے دوران جنوبی ایشیا میں 75 کروڑ افراد موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والی تباہی سے متاثر ہوئے ہیں، 2030 تک موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک میں 10 کروڑ افراد خط غربت کا شکار ہوسکتے ہیں، ہم نے 20 ہفتوں میں 26 لاکھ سے زائد افراد کو 30 کروڑ ڈالر کی منتقلی کے ذریعے ان کی پہلی ضروریات پوری کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں بہت زیادہ تعداد میں گلیشیئرز موجود ہیں اور برف پگھلنے کی اوسطاً شرح تین گنا ہے، حکومت پاکستان نے 2018 میں کل محفوظ علاقوں کو 12 فیصد سے بڑھا کر 2023 تک 15 فیصد کرنے کے مقصد کے ساتھ ’محفوظ علاقوں کے اقدام‘ کا آغاز کیا اور یہ ہدف حاصل کیا گیا، ہمارا سب سے بڑا موافقت کا پروگرام ”لیونگ انڈس انیشی ایٹو“ انتہائی اہمیت رکھتا ہے، یہ اقدام 25 علاقوں میں شروع ہوگا تاکہ کمیونٹیز کو سیلاب کے انتظام اور دریا کو آلودہ ہونے سے بچایا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں متاثرہ روزگار اور آمدن موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے بنیادی ڈھانچے، موسمیاتی تبدیلی کے خطرے اور وارننگ سسٹمز کے لیے وسائل خرچ کرنے کی ضرورت ہے، موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات سے بحالی کے لیے کلائمٹ فنانس کی ضرورت ہے، کوپ27 ترقی پذیر ممالک کی صلاحیت میں اضافے، طویل مدتی کلائمٹ فنانسنگ آسان بنانے کے لیے موافقت فنڈ کی فراہمی کا موقع ہے۔
وزیراعظم شہباز نے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ یہ ایک بہت بڑا کام ہے، ہم پرعزم لوگ ہیں لیکن اکیلے یہ کام نہیں کیا جا سکتا، یہ کانفرنس انسانیت کے حوالے سے ایک اہم موقع پر ہو رہی ہے۔
مزید پڑھیں: وزیراعظم ’کوپ 27‘ میں شرکت کیلئے مصر پہنچ گئے
انہوں نے کہا کہ ہمیں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا مسئلہ فوری حل کرنے کی ضرورت ہے، موسمیاتی تبدیلی کا بوجھ برابری کی بنیاد پر نہیں منصفانہ طور پر تقسیم ہونا چاہیے، یہ موسمیاتی انصاف کا معاملہ ہے، ہمیں چاہیے کہ اس موقعے کو بروئے کار لاتے ہوئے دنیا کی سب سے کمزور اقوام کے مستقبل کو محفوظ بنائیں۔
دو طرفہ تعلقات مزید مضبوط کرنے کے خواہاں ہیں، جرمن چانسلر سے گفتگو
وزیراعظم شہباز شریف نےجرمنی کے ساتھ تجارت، سرمایہ کاری، ماحولیاتی تبدیلی اورقابل تجدید توانائی سمیت متعدد شعبوں میں باہمی تعلقات مزید مضبوط کرنے کی خواہش کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور جرمنی کو مختلف شعبوں میں نوجوانوں کومواقع دینے کے لیے وسیع تر تعاون کرنا چاہیے۔
اے پی پی کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم نے جرمنی کے چانسلر اولاف شولز سے ’کوپ 27‘ کے موقع پر ملاقات کی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ دونوں رہنماؤں نے باہمی تعلقات کا جائزہ لیا اورتعاون کو بڑھانے کے امکانات پر غورکیا، ملاقات کے دوران باہمی دلچسپی کے علاقائی اورعالمی امور پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔
وزیراعظم نے جرمن عوام کا عزم سراہتے ہوئے جرمنی کے ساتھ تجارت، سرمایہ کاری، ماحولیاتی تبدیلی اورقابل تجدید توانائی سمیت باہمی تعلقات کومزید مضبوط کرنے کی خواہش کا اظہارکیا۔
وزیراعظم نے پاکستان کی نوجوان آبادی سے استفادے کی ضرورت پر زوردیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور جرمنی کو مختلف شعبوں میں نوجوانوں کو مواقع دینے کے لیے وسیع تعاون کرنا چاہیے۔
شہباز شریف نے جرمنی کی جانب سے پاکستان کو برسوں سے دی جانے والی تکنیکی تربیت پر شکریہ ادا کرتے ہوئے تعلیمی شعبوے میں بھی تبادلے کی ضرورت پر زوردیا، انہوں نے یورپی یونین میں جی ایس پلس اسٹیٹس کے لیے حمایت پر جرمنی کا شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی سے آنے والے حالیہ تبا ہ کن سیلاب کے بعد جرمنی کی طرف سے پاکستان کی امداد پر جرمنی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جرمن چانسلر کو حکومت کے بحالی اورتعمیرنو کے منصوبے کے بارے میں بریفنگ دی۔
وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان میں انسانی اور اقتصادی صورت حال کے پیش نظر بین الاقوامی برادری کی افغان عبوری حکومت کے ساتھ مسلسل بات چیت انتہائی اہمیت کی حامل ہے، جرمن چانسلر نے افغانستان میں نمائندہ حکومت اورانسانی حقوق کے احترام کے اپنے مؤقف کا اعادہ کیا۔
وزیراعظم نے جرمن چانسلر کی توجہ بھارت کی جانب سے غیرقانونی زیر تسلط جموں وکشمیرکی طرف مبذول کراتے ہوئے کہا کہ اس کے نتیجے میں علاقائی امن اور استحکام کو خطرہ لاحق ہے۔