امید ہے ٹی20 ورلڈ کپ میں کرکٹ ٹیم سے اچھی خبر آئے گی، چیف جسٹس
سپریم کورٹ میں قومی احتساب بیورو (نیب) قانون میں ترامیم کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست سماعت کے دوران ٹی20 ورلڈ کپ موضوع بن گیا اور چیف جسٹس عمر عطابندیال نے امید ظاہر کی کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے حوالے سے کوئی اچھی خبر سامنے آئے گیے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی خصوصی بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔
مزید پڑھیں: نیب ترامیم کیس: اختیارات کے ناجائز استعمال کا جرم کسی دوسرے قانون میں نہیں، جسٹس اعجازالاحسن
سپریم کورٹ میں سماعت جب کل تک ملتوی کی گئی تو حکومتی وکیل نے ٹی20 ورلڈ کپ میں پاکستان کے سیمی فائنل میچ کا ذکر چھیڑا اور اس پر بینچ میں شامل تینوں ججوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔
حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ کل ایک بجے پاکستان کا سیمی فائنل ہے اس وقت کیس کی سماعت نہ رکھیں، پاکستان کرکٹ ٹیم ایک معجزے کے تحت سیمی فائنل میں پہنچی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے تو میچ کے بارے میں معلوم ہی نہیں تھا، کیوں نہ سیمی فائنل کی وجہ سے کل کیس کی سماعت نہ رکھیں، جس پر پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کیس پہلے ہی التوا کا شکار ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اگر برا نہ منائیں تو ہم میچ دیکھتے رہیں گے آپ دلائل دیتے رہنا، خواجہ حارث صاحب کل کا دن چھوڑ دیں آپ بھی کرکٹ کے شیدائی ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ کہیں تو عدالت کے باہر میچ کے لیے اسکرین لگوا دیتے ہیں، دعا ہے کل سیمی فائنل میں پاکستان جیت جائے۔
چیف جسٹس عمرعطابندیال کا کہنا تھا کہ کل کیس جلدی ختم کر لیں گے تاکہ تب تک میچ اچھے حالات میں چل رہا ہو۔
یہ بھی پڑھیں: واپس ہونے والے تمام نیب ریفرنسز کی تفصیلات سپریم کورٹ میں پیش کرنے کا حکم
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کا سیمی فائنل میں پہنچنا واقعی ایک قومی معجزہ ہے۔
سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔
خیال رہے کہ سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ بدعنوانی جمہوریت، معاشرے اور قانون کی حکمرانی کے لیے نقصان دہ ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے اقوام متحدہ کی قرارداد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کی قرارداد پر کرپشن کے سدباب کے لیے دستخط کر رکھے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نیب قانون میں ترامیم کرکے اقوام متحدہ کی قرارداد کو متاثر کیا گیا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا بین الاقوامی قرارداد کو بنیاد بنا کر پارلیمنٹ کو قانون سازی سے روکا جا سکتا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ نیب قانون کے تحت رعایت کیوں دی گئی اس کی وضاحت نہیں دی گئی، کل اگر رشوت لینے کی اجازت دے دی جائے تو کیا اسے کوئی نہیں روک سکتا۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ نیب قانون میں حالیہ ترامیم کے تحت تیسرے فریق کو فائدہ پہنچایا جائے تو یہ جرم ہی نہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ قانون سازی نہ کرے تو اس سے بھی بنیادی حقوق متاثر ہو سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: 'دیکھنا ہوگا نیب قانون میں ترامیم بنیادی حقوق سے متصادم ہیں یا نہیں'
جسٹس منصور علی شاہ نے پی ٹی آئی کے وکیل سے کہا کہ آپ کے دلائل سے لگتا ہے پاکستان میں کرپشن کی روک تھام کے لیے کوئی قانون ہی نہیں ہے، جیسے پاکستان جنگل بن چکا ہے۔
نیب ترامیم
خیال رہے کہ رواں سال جون میں مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں لیکن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی، تاہم اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا تھا۔
نیب (دوسری ترمیم) بل 2021 میں کہا گیا ہے کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا، بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی 4 سال کی مدت بھی کم کر کے 3 سال کردی گئی ہے۔
قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا، مزید یہ کہ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا ہے۔
بل میں کہا گیا ہے کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی، بل نے احتساب عدالتوں کے ججوں کے لیے 3 سال کی مدت بھی مقرر کی ہے، یہ عدالتوں کو ایک سال کے اندر کیس کا فیصلہ کرنے کا پابند بھی بنائے گا۔
مجوزہ قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے، بل میں شامل کی گئی ایک اہم ترمیم کے مطابق یہ ایکٹ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے شروع ہونے اور اس کے بعد سے نافذ سمجھا جائے گا۔