عمران خان پر حملے کے مقدمے کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش
آئی جی پنجاب پولیس نے سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر درج کرکے رپورٹ عدالت عظمیٰ جمع کرادی۔
گزشتہ روز چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران آئی جی پنجاب پولیس کو 24 گھنٹوں میں سابق وزیراعظم پر حملے کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا تھا اور رپورٹ طلب کی تھی۔
مزید پڑھیں: وزیر آباد: لانگ مارچ میں کنٹینر پر فائرنگ، عمران خان سمیت کئی رہنما زخمی، حملہ آور گرفتار
آج سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے آئی جی پنجاب نے عمران خان پر قاتلانہ حملہ کی ایف آئی آر اندراج کی رپورٹ جمع کرادی، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں عمران خان پر قاتلانہ حملے کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق قاتلانہ حملہ کے مقدمہ میں اقدام قتل کی دفعہ 302 کے ساتھ دہشت گردی کی دفعات 324 بھی شامل کی گئی ہیں، مقدمہ وزیر آباد کے سٹی پولیس اسٹیشن میں درج کیا گیا ہے۔
رپورٹ آئی جی پنجاب کی جانب سے سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں رپورٹ جمع کرائی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد بالآخر عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر درج
یاد رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے آئی جی پنجاب پولیس کو عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا تھا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ 90 گھنٹے گزر گئے لیکن مقدمہ درج نہیں ہوا، اس کے بغیر تفتیش کیسے ہوگی؟ ایف آئی آر کے بغیر تو شواہد تبدیل ہوسکتے ہیں۔
اس دوران عدالت کی جانب سے طلبی پر لاہور رجسٹری سے آئی جی پولیس فیصل شاہکار ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے تھے۔
عمران خان پر حملہ، مقدمے کی پیروی کے لیے کمیٹی تشکیل
دوسری جانب، عمران خان پر قاتلانہ حملے کے مقدمے میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے جس میں پراسکیوشن نے مقدمے کی پیروی کے لیے 3 رکنی خصوصی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔
قائم کردہ 3 رکنی پراسکیوشن کمیٹی جے آئی ٹی اور تفتیشی افسر کو شواہد جمع کرنے کے حوالے سے معاونت فراہم کرے گی، کمیٹی میں حافظ اصغر علی ،رانا سلطان اور زاہد سرفراز شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: عمران خان پر حملہ، سپریم کورٹ کا آئی جی پنجاب کو 24گھنٹے میں ایف آئی آر درج کرنے کا حکم
قائم کردہ 3 رکنی پراسیکیوشن کمیٹی مقدمے کی پیروی کے لیے انسداد دہشت گردی عدالت میں بھی پیش ہوگی، پراسکیوٹر جنرل پنجاب نے کمیٹی کی تشکیل کر کے نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے۔
پس منظر
خیال رہے کہ 3 نومبر کو پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے دوران عمران خان پر حملہ ہوا تھا، تاہم اس واقعے کی ایف آئی آر تاحال درج نہیں کی گئی۔
پی ٹی آئی، پولیس کی جانب سے ایف آئی آر درج کرنے میں مبینہ ہچکچاہٹ پر سوالات اٹھا رہی ہے جبکہ پولیس، پارٹی رہنماؤں کی جانب سے اب تک ایف آئی آر درج کرنے کی کوئی درخواست موصول ہونے سے انکار کر رہی ہے۔
سابق وزیر اعظم کی جانب سے ایک اعلیٰ فوجی افسر، وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے اصرار پر پنجاب کی حکمراں اتحادی جماعتوں (پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ق) کے درمیان ڈیڈلاک برقرار ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سابق وزیر اعظم ہونے کے باجود اب تک حملے کی ایف آئی آر درج نہیں ہوسکی، عمران خان
عمران خان نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا تھا کہ جن 3 لوگوں پر انہوں نے اپنے قتل کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام عائد کیا ہے ان تینوں کے خلاف ایف آئی آر بھی درج نہیں کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ جب تک وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثنااللہ اور ایک اعلیٰ فوجی افسر مستعفی نہیں ہوتے اس وقت تک شفاف تحقیقات نہیں ہو سکتی۔
شاہ محمود قریشی نے بھی ایک بیان میں کہا تھا کہ عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر کے حوالے سے کچھ لوگ بے بس دکھائی دیتے ہیں، سابق وزیراعظم پر حملہ ہوا اور تھانہ لیت و لعل سے کام لے رہا ہے، اگر آئی جی پنجاب، عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر درج نہیں کرا سکتے تو عہدہ چھوڑ دیں۔
اس دوران یہ افواہیں بھی گرم ہوئیں کہ ایف آئی آر کے اندراج میں ہچکچاہٹ پر صوبائی حکومت انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) فیصل شاہکار کا تبادلہ کرنے جارہی ہے۔
گزشتہ روز فیصل شاہکار نے عہدہ چھوڑنے سے متعلق وفاق کو خط لکھ دیا جس میں انہوں نے لکھا کہ ذاتی وجوہات کی بنیاد پر کام جاری نہیں رکھ سکتا۔
یہ بھی پڑھیں: ایف آئی آر پر ڈیڈ لاک، عمران خان پر حملے کی تحقیقات میں قانونی پیچیدگیاں آڑے آگئیں
ذرائع کے مطابق فیصل شاہکار نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو آگاہ کیا کہ عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر پر بلاجواز تنقید اور اس کے بعد شاہ محمود قریشی کے نفرت انگیز ریمارکس محکمہ پولیس کے لیے ناقابل قبول ہیں۔
واضح رہے کہ وزارت داخلہ نے 25 مئی کے عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر عمران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کے لیے گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، اس درخواست میں حکومت نے سابق وزیر اعظم کو لانگ مارچ کے ذریعے ریاست کے خلاف جہاد کے نام پر امن و امان کی صورت حال بگاڑنے سے روکنے کا حکم بھی طلب کیا تھا۔