• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:14am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:41am Sunrise 7:10am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:14am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:41am Sunrise 7:10am

ممنوعہ فنڈنگ کیس: عمران خان نے ایف آئی اے کا نوٹس چیلنج کردیا

شائع November 5, 2022
عمران خان نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی—فائل/فوٹو: اے ایف پی
عمران خان نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی—فائل/فوٹو: اے ایف پی

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی طلبی کا نوٹس لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے ایڈوکیٹ انتظار حسین پنجوتہ اور حسان نیازی کی وساطت سے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے، جس میں وفاقی حکومت اور ایف آئی اے کو فریق بنایا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: ممنوعہ فنڈنگ کیس میں ایف آئی اے نے عمران خان کو طلب کرلیا

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ ایف آئی اے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں 7نومبر کو عمران خان کو طلب کر رکھا ہے حالانکہ ایف آئی اے کی انکوائری حقائق کے برعکس ہے۔

عدالت کو بتایا گیا ہے کہ عمران خان کو ہراساں کرنے کے لیے ایف آئی اے نے انکوائری کا آغاز کیا، سیاسی مخالفین کو فائدہ دینے کے لیے تحریک انصاف کے چیئرمین کے خلاف انکوائری شروع کی گئی ہے۔

مؤقف اپنایا گیا ہے کہ ممنوعہ فنڈنگ کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے فیصلے میں ایف آئی اے کو اکاؤنٹس کی چھان بین کی ہدایت نہیں کی گئی اور الیکشن کمیشن نے عمران خان سے اکاؤنٹس کی تفصیلات یا وضاحت بھی نہیں مانگی تھی۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے محض اکاؤنٹس کی ترسیلات کا ریکارڈ مانگا تھا، پی ٹی آئی پنجاب کے اکائونٹس دفتری اخراجات کیلئے استعمال کئے گئے تھے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ آئین کے تحت فنڈ اکٹھے کرنا ہر سیاسی جماعت کا آئینی حق ہوتا ہے، ایف آئی اے کو سیاسی جماعت کی فنڈنگ کے خلاف انکوائری کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ممنوعہ فنڈنگ کیس: عمران خان کا ایف آئی اے کے نوٹس کا جواب دینے سے انکار

عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ ایف آئی اے کی ممنوعہ فنڈنگ کے الزام کی انکوائری غیر قانونی قرار دے کر کالعدم کی جائے، عدالت ایف آئی اے میں طلبی کے نوٹسز پر عمل درآمد روکے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدالت ایف آئی اے کو عمران خان کے خلاف تادیبی کاروائی سے بھی روکے۔

یاد رہے کہ ممنوعہ فنڈنگ کیس کے حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) میں مبینہ طور پر جھوٹا حلف نامہ جمع کرانے کے الزام میں سابق وزیر اعظم عمران خان کو ایف آئی اے نے 31 اکتوبر کو طلب کرلیا تھا۔

اس سے قبل ایف آئی اے نے 5 اکتوبر کو پی ٹی آئی قیادت کے خلاف لاہور اور کراچی میں دو ایف آئی آرز درج کی تھیں اور دونوں مقدمات میں ایک جیسے الزامات عائد کیے گئے تھے۔

لاہور میں درج ایف آئی آر میں عارف نقوی، طارق شفیع، زمان خان، منظور احمد چوہدری، مبشر احمد، حبیب بینک لمیٹڈ کی انتظامیہ اور پی ٹی آئی قیادت پر فراڈ کا الزام لگایا گیا ہے۔

کراچی میں رجسٹرڈ مقدمے میں نشان دہی کی گئی ہے کہ عارف نقوی غیر ملکی فنڈنگ کا بڑا فائدہ اٹھانے والے تھے اور انہوں نے ابراج انویسٹمنٹ مینجمنٹ لمیٹڈ، امان فاؤنڈیشن، گرے میکانزی ہولڈنگز، سلور لائن ہولڈنگز، اور اسٹریلیزیا اے ٹی ایف امان سے غیر ملکی ٹیلی گرافک ٹرانسفرز (ایف ٹی ٹیز) حاصل کیں۔

ڈان کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ عمران خان کو اس وقت طلب کیا گیا جب ایک تحقیقاتی ٹیم کو پتا چلا کہ طارق شفیع نے کراچی سے 56 کروڑ 20 لاکھ روپے یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ (یو بی ایل) کی اسلام آباد میں جناح ایونیو برانچ میں پی ٹی آئی کے اکاؤنٹ میں منتقل کیے جس پر عمران خان نے دستخط کنندہ تھے۔

مزید پڑھیں: ممنوعہ فنڈنگ کیس: عمران خان کی عبوری ضمانت میں 31 اکتوبر تک توسیع

اکتوبر کے اوائل مین اسلام آباد میں ایف آئی اے کے کمرشل بینک سرکل کی طرف سے درج ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 'پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سامنے (ابراج کے بانی) عارف مسعود نقوی کا ایک حلف نامہ جمع کرایا جس میں کہا گیا کہ ڈبلیو سی ایل (ووٹن کرکٹ لمیٹڈ) کے اکاؤنٹس میں جمع کی گئی تمام رقوم پاکستان میں پی ٹی آئی کے اکاؤنٹ میں جمع کرائی گئی تھی لیکن وہ حلف نامہ جھوٹا، جعلی ثابت ہوا کیونکہ مئی 2013 میں ڈبلیو سی ایل سے پاکستان میں دو مختلف اکاؤنٹس میں دو مزید ٹرانزیکشنز بھی کی گئیں۔

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ ابراج کے مالک نے 21 لاکھ 20 ہزار ڈالر سے زیادہ کی رقم پی ٹی آئی کے ایک بینک اکاؤنٹ میں منتقل کی، جس کے دستخط کرنے والوں میں عمران خان اور سیف اللہ نیازی سمیت دیگر پارٹی رہنما شامل تھے۔

رپورٹ میں بتاگیا تھا کہ ایف آئی اے نے اس ایف آئی آر میں عمران خان، عامر کیانی اور چار دیگر کے وارنٹ گرفتاری بھی حاصل کیے تھے۔

کارٹون

کارٹون : 24 دسمبر 2024
کارٹون : 23 دسمبر 2024