• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

عمران خان کی توہین عدالت کیس میں التوا کی درخواست

شائع November 5, 2022
سپریم کورٹ میں عمران خان کی جانب سے ان کے وکیل سلمان اکرم راجا  نے درخواست دائر کی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
سپریم کورٹ میں عمران خان کی جانب سے ان کے وکیل سلمان اکرم راجا نے درخواست دائر کی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی جانب سے توہین عدالت کیس کے التوا کی درخواست دائر کر دی گئی ہے۔

سپریم کورٹ میں عمران خان کی جانب سے ان کے وکیل سلمان اکرم راجا نے توہین عدالت کیس میں التوا کی درخواست دائر کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے 25 مئی کے واقعات پر عمران خان سے جواب طلب کرلیا

درخواست میں کہا گیا ہے کہ ‏مؤکل افسوسناک واقعے کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہیں، اس وجہ سے معاملے پر جواب جمع کرانا ممکن نہیں، استدعا ہے کہ مقدمہ کو فی الحال سماعت کے لیے مقرر نہ کیا جائے۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ گزشتہ سماعت میں عدالت نے عمران خان سے مشاورت کے بعد تفصیلی جواب جمع کرانے کا حکم دیا تھا، تاہم اب عمران خان کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بعد 7 نومبر کو کیس کی سماعت نہ کی جائے۔

مزید پڑھیں: 'لانگ مارچ' میں کسی بھی طرف سے قانون کی خلاف ورزی ہوئی تو مداخلت کریں گے، چیف جسٹس

خیال رہے کہ گزشتہ سماعت میں سپریم کورٹ نے عمران خان سے 25 مئی کے مارچ کے دوران ہونے والے واقعات اور عدالتی حکم کی مبینہ خلاف ورزی پر تفصیلی جواب طلب کیا تھا۔

2 نومبر کو ہونے والی سماعت میں عدالت عظمیٰ نے عمران خان سے 5 نومبر تک تفصیلی جواب طلب کرتے ہوئے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کردی تھی۔

پس منظر

واضح رہے کہ وزارت داخلہ نے 25 مئی کے عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر عمران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کے لیے گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

اس درخواست میں حکومت نے سابق وزیر اعظم کو لانگ مارچ کے ذریعے ریاست کے خلاف جہاد کے نام پر امن و امان کی صورت حال بگاڑنے سے روکنے کا حکم بھی طلب کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں عمران خان سے جواب طلب کرلیا

25 مئی کے اس عدالتی حکم میں پی ٹی آئی کو اسلام آباد کے ایچ-نائن اور جی-نائن کے درمیان پشاور موڑ کے قریب 'آزادی مارچ' کے انعقاد سے روک دیا گیا تھا، تاہم عمران خان اور ان کے حامیوں نے عدالتی احکامات کی مبینہ خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈی چوک کا رخ کیا تھا۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ مئی میں دیے گئے حکم پر سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت اور ان کے وکیل کی جانب سے اس بات کی واضح یقین دہانیوں کے پیش نظر سیکٹر ’ایچ نائن اور ’جی نائن‘ کے درمیان واقع گراؤنڈ میں جلسہ منعقد کرنے کی ہدایت کی تھی کہ ان کی ریلی سے سری نگر ہائی وے کو کسی قسم کی تکلیف یا بلاک کرنے یا عوام کو پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور ریلی پرامن اور قانونی طریقے سے آگے بڑھے گی۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ ان یقین دہانیوں کے باوجود پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت نے ہدایات کو صریح نظر انداز کرتے ہوئے اپنے حامیوں کو ڈی چوک پہنچنے کی تلقین کی اور یہ جھوٹا دعویٰ کیا کہ عدالت نے بغیر کسی شرط کے مارچ کی اجازت دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کےخلاف حکومت کی سپریم کورٹ میں درخواست

توہین عدالت کی درخواست میں عوام بالخصوص اسلام آباد اور راولپنڈی کے رہائشیوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے عدالت عظمیٰ کے حکم پر عمل درآمد کی استدعا کی گئی۔

عدالت عظمیٰ سے یہ بھی استدعا کی گئی کہ وہ وفاقی دارالحکومت میں ہونے والے مستقبل کے تمام احتجاجی مظاہروں کے لیے جامع ہدایات بھی جاری کرے جس میں احتجاج کی تاریخ کی پیشگی اطلاع، مقام کا انتخاب، عوامی معمولات میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ کرنے کی یقین دہانی اور اس عزم کا اظہار شامل ہو کہ مظاہرین سرکاری یا نجی املاک کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔

درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کا موجودہ حکمرانوں اور ریاستی اداروں کے خلاف تقاریر میں اپنایا ہوا لہجہ انتہائی اشتعال انگیز تھا جس کا مقصد عدم اعتماد اور توہین کی حوصلہ افزائی اور بغاوت کو ہوا دینا تھا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا عمران خان کو گرفتار نہ کرنے، احتجاج کیلئے جگہ فراہم کرنے کا حکم

درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس سے نہ صرف عوام میں بلکہ عالمی برادری اور سرمایہ کاروں کے لیے بھی اس مبینہ جہاد کے اثرات کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے۔

حکومت نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ اگر پی ٹی آئی کے مارچ کو بلا روک ٹوک اور بے ضابطگی کے جانے دیا گیا تو اس سے نہ صرف پورے ملک میں سیاسی اور امن و امان کی مخدوش صورتحال پیدا ہوجائے گی بلکہ وفاقی حکومت کی توجہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بحالی کی کوششوں سے جڑواں شہروں کے مکینوں کی زندگیوں پر اثرات دور کرنے کی جانب مبذول ہوجائے گی۔

درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ پارٹی سربراہ کے ماضی کے طرز عمل، خاص طور پر 25 مئی کے واقعات اور عدالتی احکامات کی خلاف ورزی، سرکاری اور نجی املاک کو تباہ کرنے اور امن و امان میں خلل ڈالنے کی ان کی مبینہ حوصلہ افزائی کو دیکھتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے ان کے آئندہ احتجاج کے بارے میں سخت ہدایات کی ضرورت ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024