پاک ۔ چین تعلقات سے آپ کا کوئی لینا دینا نہیں، چین کا امریکا کو پیغام
سٹمسن سینٹر میں چائنا پروگرام کے ڈائریکٹر کے مطابق چین کا ماننا ہے کہ امریکا کو چین اور پاکستان پر بیجنگ کے قرضوں پر دوبارہ مذاکرات پر زور دینا چاہیے نہ پاک ۔ چین تعلقات پر تنقید کرنی چاہیے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان امریکا تعلقات کے حوالے سے دو روزہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چینی خارجہ پالیسی کے ماہر یون سین نے کہا کہ امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات جنوبی ایشیا کے لیے چین کی مجموعی حکمت عملی کا ایک عنصر تھے لیکن چین کو کافی اعتماد ہے کہ پاک امریکا تعلقات کی جہت سے قطع نظر، چین کے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: وزیرِ اعظم کا دورہ چین، پاک-چین قیادت کا تعلقات مضبوط اور سی پیک کیخلاف خطرات ناکام بنانے کا عزم
تاہم انہوں نے کہا کہ چین، پاکستان بالخصوص سی پیک کے حوالے سے اپنی پالیسی اور توقعات کو بھی ایڈجسٹ یا دوبارہ مرتب کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان تعلقات کے ازسرنو تعین کے حوالے سے چین میں ایک خوش آئند رویہ ہے کہ پاکستان کو اپنی بیرونی حکمت عملی کو دوبارہ متوازن کرنا چاہیے، یہ ایک خوش آئند رویہ ہے کہ پاکستان دوبارہ امریکا سے رابطہ کر رہا ہے۔
یون سین نے کہا کہ پاکستان کی توقعات اور بیرونی صف بندی کی حکمت عملی کی اس تبدیلی کو چین میں کافی حد تک منظوری حاصل ہے۔
انہوں نے کہا کہ چینیوں کو یقین نہیں تھا کہ امریکا اور پاکستان کے تعلقات کی بحالی خطے میں چین کے مفادات کو متاثر کرے گی کیونکہ بھارت اب بھی وہاں موجود ہے جبکہ سی پیک سب سے اہم مہمات میں سے ایک رہے گا چاہے لوگ اس کے بارے میں کیسا ہی کیوں نہ محسوس کریں۔
یہ بھی پڑھیں: کسی کو پاک ۔ چین تعلقات خراب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، بلاول بھٹو
پاک ۔ امریکا بات چیت پر چین کے ردعمل کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس کا زیادہ تر انحصار پاکستان کے بجائے اس بات پر ہے کہ امریکا کیا کہتا ہے۔
جب یون سین سے پوچھا گیا کہ امریکا نے تجویز کیا ہے کہ پاکستان کو بیجنگ کے ساتھ اپنے قرض پر دوبارہ بات چیت کرنی چاہیے، اس پر چین کا کیا ردعمل ہے تو انہوں نے کہا کہ امریکا کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے چین کے متعدد تجزیے دیکھے ہیں جن میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکا پاک چین تعلقات کو سبوتاژ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور واشنگٹن پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان چین تعلقات کو تنقید کا نشانہ نہ بنائے۔
اس موقع پر پروگرام کی ماڈریٹر شمائلہ چوہدری نے ایک اور پینلسٹ اور یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس (یو ایس آئی پی) کے ڈینیئل مارکی سے پوچھا کہ کیا آپ کا اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ کس حد تک ہمارے یقیناً لینا دینا ہے، ہم اس کے قرضوں کے بوجھ کو دیکھتے ہیں، ہمیں اس کی معاشی ترقی کے حوالے سے خدشات ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان آئی ایم ایف اور دوسرے قرض دہندگان کے پاس جاتا ہے لہٰذا یقیناً، یہ درست ہے کہ امریکا پاکستان کے قرضوں کی دیگر اقسام کے بارے میں سوال کرتا ہے جن میں چین بھی شامل ہے۔
مزید پڑھیں: چین کے ساتھ سرمایہ کاری، تجارتی تعلقات میں وسعت کے خواہاں ہیں، وزیراعظم
تاہم واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر مسعود خان نے وضاحت کی کہ کس طرح افغانستان میں جنگ کے خاتمے نے پاکستان اور امریکا کو ازسر نو اپنے تعلقات کے آغاز کا موقع فراہم کیا۔
سفیر مسعود خان نے لاہور یونیورسٹی کے سینٹر فار سیکیورٹی، اسٹریٹجی اینڈ پالیسی ریسرچ (سی ایس ایس پی آر) کے زیر اہتمام دو روزہ کانفرنس میں اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ ماضی میں امریکی پالیسی علاقائی توازن پر مبنی تھی، پاکستان اور امریکا کے تعلقات اب بھارت اور افغانستان سے ربط میں آ چکے ہیں، ہم اس وقت نئے تکنیکی دور میں ایک وسیع البنیاد تعلقات کو دوبارہ ترتیب دینے اور نئے سرے سے متحرک کرنے کے لیے مصروف عمل ہیں۔