وزیرآباد میں فائرنگ کا واقعہ ہماری سیاسی پستی کا نتیجہ ہے، خواجہ آصف
وزیر دفاع خواجہ آصف نے وزیرآباد میں تحریک انصاف کے لانگ مارچ میں فائرنگ کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج کا واقعہ ہماری سیاسی پستی کا نتیجہ ہے اور اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ہم اپنے سیاسی نظریے اور سیاسی پسند ناپسند کے لیے جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ وزیرآباد کے قریب تحریک انصاف کے لانگ مارچ پر فائرنگ اندوہناک واقعہ ہے جس میں پی ٹی آئی عمران خان بھی زخمی ہوئے ہیں، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاست میں تشدد کا رجحان قوموں کو لے ڈوبتا ہے، سیاست بنیادی طور پر ڈائیلاگ کا نام ہے، ایک ایسے رشتے کا نام ہے جس سے مسئلوں کو حل کیا جاتا ہے، ان کو گمبھیر نہیں کیا جاتا۔
مسلم لیگ(ن) نے کہا کہ جب آپ سیاست میں نفرت، تقسیم اور تفریق کے بیج بو دیتے ہیں تو سیاست بہت مشکل کام ہو جاتا ہے، وہ سیاست نہیں رہتی بلکہ ایک متشدد کلچر کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت نے بھی متشدد رجحانات کو ہوا دی اور یہ متشدد ذہنیت کا شاخسانہ تھا، ہماری سیاست میں 90 کی دہائی کے بعد آہستہ آہستہ بھائی چارے کی فضا ختم ہوتی گئی۔
مزید پڑھیں: عمران خان اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کیلئے دروازے کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں، خواجہ آصف
خواجہ آصف نے کہا کہ کچھ دیر کے لیے سیاسی حکومتیں جب برسر اقتدار رہیں تو انہوں نے سیاست کے اندر اس چیز کو دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کی لیکن ہماری سیاست میں ناصرف زبان متشدد ہوگئی بلکہ آج کا واقعہ اس بات کی گواہی دیتا ہے ہم اپنے سیاسی نظریہ کے لیے جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ جب سیاستدانوں کے منہ سے مار دو، جلا دو جیسے الفاظ ادا ہوتے ہیں تو ان کے حامیوں کو تربیت اور لائسنس مل جاتا ہے کہ اگر وہ سیاست کے اندر متشدد راہ اپنا لیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
وزیر دفاع نے کہا کہ جب سیاستدان اس قسم کی گفتگو کرتے ہیں تو ان کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ اگر آپ طرح کا بیج بوئیں گے تو پوری قوم اس کی کٹائی کرے گی۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان ملکی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں، ان کےخلاف لمبی قانونی کارروائی ہونے والی ہے، خواجہ آصف
انہوں نے کہا کہ لمبے عرصہ سے ہماری سیاست میں جو پستی آئی ہے آج کا واقعہ اس کا نتیجہ ہے اور ریاست کو اپنی ذاتی ترجیحات کے لیے استعمال کرنے کا رجحان ختم ہونا چاہیے نہیں تو یہاں پر میری یا اپوزیشن کی سیاسی زبان ترک ہو جائے گی اور گولی کی زبان راج کرے گی اور پھر تباہی، جلاؤ گھیراؤ کے نعروں کی پیروی کی جائے گی۔
خواجہ آصف نے کہا کہ آج کے واقعہ سے ایک سبق بھی ہے کہ ہم سیاسی ورکر ہیں اور سیاسی ورکر کو امن اور گفتگو کو کلچر ترک نہیں کرنا چاہیے کیونکہ جس دن وہ اس چیز کو ترک کرتا ہے تو تشدد اور گولی کی زبان چلنا شروع ہوجاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں تشدد کی سیاست کو ہوا نہیں دینی چاہیے کیونکہ تشدد ریاستوں اور معاشروں کو ’ان ڈو‘ کردیتا ہے۔